GHAG

جنرل عاصم منیر کی ٹرمپ سے ملاقات: نئی سفارتی سمت یا وقتی سیاسی حکمت عملی؟

جنرل عاصم منیر کی ٹرمپ سے ملاقات: نئی سفارتی سمت یا وقتی سیاسی حکمت عملی؟

فہمیدہ یوسفی

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ایک عرصے سے پیچیدگی کا شکار رہے ہیں، دونوں جانب سے تعلقات ہمیشہ اتار چڑ ھاو کا شکار رہے ہیں ۔ مگر اب بظاہر ایک غیرمعمولی موڑ سامنے آ رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستانی آرمی چیف فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا جانا معمول کی سفارتی سرگرمی نہیں بلکہ کئی حوالوں سے ایک بڑی پیش رفت قرار دی جا رہی ہے۔

وائٹ ہاؤس اور پاکستانی اعلیٰ سیکیورٹی ذرائع کی تصدیق کے مطابق یہ ملاقات آج ظہرانے پر ہوگی، جو کیبنٹ روم میں منعقد کی جائے گی۔ صحافیوں کو اس ملاقات میں رسائی نہیں دی جا رہی، تاہم امکان ہے کہ ٹرمپ یا ان کا دفتر بعد ازاں سوشل میڈیا یا پریس بریفنگ کے ذریعے اس ملاقات کی تفصیلات سامنے لائیں گے۔

یہ ملاقات ایسے وقت ہو رہی ہے جب صدر ٹرمپ نے اپنا کینیڈا کا دورہ مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال کے باعث مختصر کیا ہے اور بھارتی وزیراعظم سے ان کی متوقع ملاقات بھی مؤخر ہو چکی ہے۔ ان بدلتے ہوئے عالمی حالات میں پاکستان کے ساتھ اعلیٰ سطح کی بات چیت نہ صرف امریکی خارجہ پالیسی میں پاکستان کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے بلکہ یہ بھی عندیہ دیتی ہے کہ واشنگٹن جنوبی ایشیا میں توازن کی نئی صورت گری چاہتا ہے۔

جنرل عاصم منیر نے گزشتہ روز واشنگٹن میں پاکستانی امریکن کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر کے مسئلے پر صدر ٹرمپ کے مؤقف کا ذکر کیا اور کہا کہ آنے والے دنوں میں کئی اہم پیش رفتیں متوقع ہیں۔ اُن کی یہ پیش گوئی آج کی ملاقات کی صورت میں حقیقت بنتی دکھائی دیتی ہے۔

اسی خطاب میں انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان میں موجود معدنی وسائل امریکہ کے لیے ایک نیا معاشی در کھول سکتے ہیں۔ یوکرین سے 400 سے 500 ارب ڈالر کے معدنی معاہدوں کے مقابلے میں پاکستان نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے پاس ایک کھرب ڈالر مالیت کے ذخائر موجود ہیں، جہاں امریکہ اگر سرمایہ کاری کرے تو آئندہ 100 سال تک سالانہ 10 سے 15 ارب ڈالر کا فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ شرط یہ رکھی گئی ہے کہ پراسسنگ پاکستان میں ہو تاکہ مقامی معیشت کو روزگار اور ترقی کا فائدہ ہو۔

مزید برآں، کرپٹو مائننگ اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ڈیٹا سینٹرز کی پاکستان میں شراکت داری کی تجاویز نہ صرف تکنالوجی کے شعبے میں ایک انقلابی قدم ہو سکتی ہیں بلکہ پاکستان کو عالمی ڈیجیٹل معیشت میں جگہ دلانے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب محض بیانات کی حد تک محدود رہے گا، یا اس ملاقات کے بعد واقعی کسی عملی فریم ورک پر پیش رفت ہوگی؟ اور کیا یہ پیش رفت محض امریکہ کی چینکے خلاف ایک نئی تزویراتی چال ہے، یا واقعی پاکستان کو خطے کا ایک مرکزی کھلاڑی بنانے کا آغاز؟

یہ ملاقات جہاں بظاہر سفارتی سرپرائز لیے ہوئے ہے، وہیں اس کے اندر معاشی امکانات، اسٹریٹجک شراکت داری، اور عالمی صف بندی کی گہرائی بھی چھپی ہوئی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ٹرمپ کی یہ سیاسی چال وقتی ہے یا پھر یہ پاکستان اور امریکہ کے لیے نئےتعلقات کا آغاز بھی ہو سکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts