بیرسٹرڈاکٹرعثمان علی
آج کی دنیا میں “امریکہ” کا نام سن کر تحسین یا خواہش کا جذبہ نہیں ابھرتا، بلکہ غصہ، خوف اور نفرت جنم لیتی ہے۔ جو ملک کبھی آزادی اور ترقی کی علامت سمجھا جاتا تھا، اس نے اپنی دہائیوں پر محیط خونی خارجہ پالیسی، جارحانہ عسکری حکمت عملی اور تکبر سے لبریز رویے کے باعث اپنی اخلاقی ساکھ خود مٹی میں ملا دی ہے۔ یہ حقیقت سب سے نمایاں طور پر مسلم دنیا میں نظر آتی ہے، جہاں امریکی مداخلتوں نے برباد ریاستیں، اجڑی ہوئی مائیں اور غصے میں پلتی نسلیں پیچھے چھوڑی ہیں۔
افغانستان سے لے کر عراق، لیبیا، شام اور اب ایران تک ، امریکہ بارہا دنیا کا خودساختہ “ٹھیکے دار” بن کر سامنے آیا ہے۔ ہر جنگ، ہر ڈرون حملہ، ہر فوجی قبضہ ایک نیا جواز لے کر آیا: کبھی دہشتگردی کے خلاف جنگ، کبھی جمہوریت کا فروغ، کبھی ایٹمی ہتھیاروں کا خوف، اور کبھی انسانی حقوق کا بہانہ۔ لیکن ان دعووں کے پیچھے چھپی اصل حقیقت کچھ اور ہے: یہ امن کے مشن نہیں، بلکہ طاقت کی نمائش، مفادات کا تحفظ، اور بالادستی کی خواہش ہے۔
درحقیقت، امریکہ نے دہشتگردی ختم نہیں کی ، بلکہ اسے بڑھاوا دیا۔ ہر وہ میزائل جو کسی گاؤں کو راکھ کر دیتا ہے، ہر وہ حملہ جو معصوموں کی جان لیتا ہے، اور ہر وہ حکومت جو زبردستی گرا دی جاتی ہے ، یہ سب ایک نئی نفرت کو جنم دیتے ہیں۔ جہاں انصاف ناپید ہو، وہاں انتقام جنم لیتا ہے۔ وہ بچے جنہوں نے اپنے والدین کو امریکی بمباری میں مرتے دیکھا، وہ امن کے سفیر نہیں بنتے ، وہ خود آگ بن جاتے ہیں۔
یہ تلخ مگر ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ خودکش حملہ آور، شدت پسند گروہ اور مزاحمتی تحریکیں خلا میں پیدا نہیں ہوتیں۔ یہ امریکی مداخلتوں کا نتیجہ ہیں۔ القاعدہ، امریکہ ہی کے تعاون سے افغان جہاد کے دوران پروان چڑھی۔ داعش، عراق پر امریکی حملے کے بعد بننے والے خلا میں ابھری۔ لیبیا، جو کبھی افریقہ کا مستحکم ملک تھا، نیٹو کی بمباری کے بعد خانہ جنگی، بدامنی اور انسانی اسمگلنگ کا گڑھ بن چکا ہے۔ “دہشتگردی کے خلاف جنگ” اب خود دہشتگردی کی ایک فیکٹری بن چکی ہے ، اور اس کا معمار کوئی اور نہیں، خود امریکہ ہے۔
امریکہ خود کو ایک “مہذب قوم” کہتا ہے۔ لیکن کتنی مہذب ہے وہ قوم جس نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر دو لاکھ سے زائد انسانوں کو لمحوں میں خاک کر دیا؟ جس نے ویتنام پر کیمیکل بم برسائے جن کے اثرات آج بھی بچوں کی جسمانی ساخت بگاڑ رہے ہیں؟ جو اقوامِ متحدہ کی منظوری کے بغیر خودمختار ممالک پر حملہ آور ہوتی ہے، حکومتیں گراتی ہے اور پھر خاموشی سے پیچھے ہٹ جاتی ہے؟
فلسطین کی مثال سب کے سامنے ہے۔ اسرائیل جب غزہ پر اندھا دھند بمباری کرتا ہے، سکول، اسپتال اور گھروں کو مٹی میں ملا دیتا ہے، امریکہ نہ صرف اسے اسلحہ فراہم کرتا ہے بلکہ ہر جنگ بندی کی عالمی قرارداد کو ویٹو بھی کر دیتا ہے۔ ایران پر اقتصادی پابندیاں ظاہری طور پر حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہیں، لیکن اصل میں یہ پابندیاں دواخانوں، مریضوں اور عام شہریوں کو سزا دیتی ہیں۔
یہ تکبر صرف مسلم دنیا کو نقصان نہیں پہنچا رہا ، بلکہ خود امریکہ کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہو رہا ہے۔ 9/11 کے بعد شروع ہونے والی جنگوں میں سات ہزار سے زائد امریکی فوجی مارے گئے، جبکہ تیس ہزار سے زیادہ سابق فوجیوں نے خودکشی کی۔ کھربوں ڈالر تعلیم، صحت یا بنیادی سہولیات پر خرچ ہونے کے بجائے ہتھیاروں اور جنگوں پر جھونک دیے گئے۔ اور نتیجہ؟ افغانستان دوبارہ طالبان کے کنٹرول میں ہے، عراق غیر مستحکم ہے، شام کھنڈر بن چکا ہے، اور لیبیا میں حکومت کا نام و نشان نہیں۔ دہشتگردی؟ وہ آج بھی دنیا کے مختلف گوشوں میں پنپ رہی ہے۔
یہ طاقت نہیں ، کھلی ناکامی ہے۔ اور اس سے بڑھ کر خطرناک ہے اس پر خاموشی۔
اس تباہی کی ذمہ داری صرف امریکی صدور پر نہیں، بلکہ اس پورے نظام پر ہے۔ جارج بش نے جھوٹ کی بنیاد پر عراق پر حملہ کیا، باراک اوباما نے ڈرون حملوں کو معمول بنا دیا، ڈونلڈ ٹرمپ نے بین الاقوامی معاہدے توڑے، یروشلم کو متنازعہ بنا کر فلسطینیوں کو مشتعل کیا، اور نسل پرستی کو ہوا دی۔ جو بائیڈن نے وعدے تو بہت کیے، لیکن اسرائیلی جارحیت اور اقتصادی پابندیوں کو جاری رکھا۔ یہ سب امن کے نمائندے نہیں، یہ ایک زوال پذیر سلطنت کے محافظ ہیں۔
مسئلہ صرف قیادت میں نہیں، بلکہ امریکی عوام کی بے حسی میں بھی ہے۔ وہ دانشور، صحافی، اور لبرل طبقہ جو اپنے ملک میں نسلی مساوات اور انسانی حقوق کی بات کرتا ہے، وہ دنیا میں جاری قتل و غارت پر خاموش رہتا ہے۔ ان کی یہ خاموشی ظالم کی طاقت بنتی ہے، اور مظلوم کے زخم کو مزید گہرا کرتی ہے۔
اب وقت ہے کہ امریکی عوام خود سے سوال کریں: آپ کے نام پر کیا کچھ کیا جا رہا ہے؟ آپ کے ٹیکس سے کن کی تباہی ہو رہی ہے؟ کیا آپ واقعی دنیا کو محفوظ بنا رہے ہیں، یا صرف نفرت کے بیج بو رہے ہیں؟
دنیا کو خودساختہ پولیسنگ کی نہیں ، عدل و انصاف کی ضرورت ہے۔ جنگی جنون کی نہیں ، مکالمے کی ضرورت ہے۔ اگر امریکہ واقعی دنیا کی قیادت کا دعویدار ہے تو اسے یہ مقام بموں اور پابندیوں سے نہیں، بلکہ کردار، انصاف اور احتساب سے حاصل کرنا ہوگا۔
جب تک ایسا نہیں ہوتا، تب تک امریکی پرچم آزادی کا نہیں، خوف کا نشان رہے گا۔ لوگ اُس کی تعظیم نہیں کریں گے، بلکہ اس سے دور بھاگیں گے۔ وہ محبت نہیں، نفرت کریں گے، نہ اس کی ثقافت سے، نہ اس کے عوام سے، بلکہ اُس ظلم و بربادی سے جو ان کے نام پر کی جا رہی ہے، اور اس اجتماعی خاموشی سے جو ہر جرم کو ممکن بناتی ہے۔