کالعدم ٹی ٹی پی اور اس کے اتحادی گروپوں نے جون کے ریکارڈ حملوں کے بعد جولائی 2025 کے پہلے ہفتے کے دوران بھی مسلسل حملے جاری رکھے ۔ یہاں تک کہ عاشورہ کے دوران 9 محرم کو بھی متعدد کارروائیاں کیں جس کے نتیجے میں نہ صرف فورسز بلکہ بنوں میں ایک جرگے کے سربراہ کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ۔ دوسری جانب پنجاب کے علاقے تونسہ شریف کو رواں برس کے دوران ساتویں بار نشانہ بنایا گیا ۔ اس سلسلے میں 5 جولائی کو تونسہ شریف میں ایک جھڑپ کے نتیجے میں 4 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا گیا ۔ اسی روز خیبرپختونخوا کے بنوں میں ایک مقامی رہنما اور جرگہ کے سربراہ عید نواز خان کو یرغمال بنانے یا اغواء کرنے کے لیے ٹیپو گل گروپ نے حملہ کیا جس کی نہ صرف جرگہ ارکان بلکہ عام لوگوں نے بھی مسلح مزاحمت کی ، اس جھڑپ میں ایک شہری جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہوئے مگر اغواء کی کوشش ناکام بنادی گئی ۔ سی روز سرائے نورنگ میں سی ٹی ڈی کی ایک کارروائی میں تین سے چار دہشت گرد ہلاک کیے گئے جبکہ وزیرستان اور بعض دیگر علاقوں سے بھی دو طرفہ کارروائیوں اور جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئیں ۔
ان واقعات سے دو دن قبل پشاور کے علاقے ریگی للمہ میں ایک پولیس چوکی کو دو گرینیڈ دھماکوں کا نشانہ بنایا گیا ۔ اس علاقے میں اس سے قبل بھی اس نوعیت کے حملے ہوتے رہے ہیں ۔
پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو جولائی کے پہلے ہفتے میں اس وقت ایک بڑی کامیابی حاصل ہوئی جب شمالی وزیرستان کے علاقے حسن خیل میں فورسز نے کہا کرتے ہوئے افغانستان سے پاکستان میں دراندازی کرنے والے ایک بڑے گروپ کا راستہ روک کر 2 اہم کمانڈروں سمیت 30 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا جبکہ بعض دیگر آپریشن بھی کیے گئے تاہم حملوں کا سلسلہ پھر بھی جاری رہا اور بعض علاقوں میں حکومت کو کرفیو لگانے کے اقدامات اٹھانے پڑے ۔
جولائی ہی کے ابتدائی دنوں میں داعش خراسان نے باجوڑ میں ایک سرکاری گاڑی کو بم دھماکہ سے اڑایا جس کے نتیجے میں اسسٹنٹ کمشنر اسماعیل سمیت تین دیگر سرکاری افسران شہید ہوگئے ۔ اس حملے میں دو راہگیر بھی شہید ہوئے جبکہ 18 دیگر عام شہری زخمی ہوئے ۔ اس تمام عرصے کے دوران صوبے کے مختلف علاقوں میں مسلح طالبان گروپوں کی گشت کی ویڈیوز سامنے آتی رہیں جس کے باعث عوام میں خوف پھیلنا شروع ہوگیا اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے وزیرستان اور دو تین دیگر اضلاع میں فل اسکیل آپریشن کرنے کی اطلاعات گردش کرنے لگیں ۔ ان اطلاعات اور ممکنہ آپریشنز کے خلاف 4 جولائی کو شمالی وزیرستان کے میر علی میں ایک بڑا عوامی اجتماع منعقد ہوا جس میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوئے ۔ شرکاء نے کسی مجوزہ آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا عوام کو دہشتگردی اور بدامنی سے بچانا ریاست کی ذمہ داری ہے اس لیے وہ عوام کو تحفظ فراہم کرے ۔ اس ایونٹ میں بھرپور شرکت اور سوشل میڈیا کمپین چلانے پر پشتون تحفظ موومنٹ پر سیکیورٹی حلقوں کی جانب سے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا اور موقف اختیار کیا گیا کہ پی ٹی ایم اور بعض دیگر گروپ حملہ اور طالبان گروپوں کو سیاسی سپورٹ اور سہولت کاری فراہم کررہے ہیں ۔ اسی تناظر میں کالعدم ٹی ٹی پی نے ایک بیان جاری کیا جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ قبائلی علاقوں میں آپریشن کرکے یہاں کے وسائل پر قبضہ کرنے کا راستہ ہموار کررہی ہے ۔ کچھ ایسا ہی بیانیہ پی ٹی ایم اور بعض دیگر پارٹیوں کے بیانات میں بھی سامنے آیا اسی دوران اس قسم کی اطلاعات بھی موصول ہونے لگیں کہ پاکستان افغانستان کے بعض سرحدی علاقوں میں مبینہ طور پر موجود بعض ان ٹھکانوں کو ایئر سٹرایکس کے ذریعے حملے کرنے کی پلاننگ کررہا ہے جہاں سے پاکستان پر حملوں کی پلاننگ اور ریکروٹنگ ہوتی ہیں ۔
اس تمام صورتحال کے تناظر میں ماہرین خدشہ ظاہر کرنے لگے کہ پاکستانی ریاست اور فوج مستقبل قریب میں بعض سخت اقدامات کرنے پر مشاورت کررہی ہیں اور اس ضمن میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بڑے پیمانے پر فل اسکیل ملٹری آپریشن کیے جاسکتے ہیں ۔ ماہرین اس پیچیدہ اور تشویشناک صورتحال کے دوران پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی ” پرو طالبان” پالیسی کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ کہتے پائے گئے کہ اس کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے تاہم بے شمار سیاسی ورکرز اور میڈیا پرسنز وفاقی حکومت کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھاتے دکھائی دیے ۔
(6 جولائی 2025)