GHAG

قبائلی علاقے، معدنی وسائل اور عالمی مفادات۔

قبائلی علاقے، معدنی وسائل اور عالمی مفادات۔

انور داوڑ

پاکستان کے قبائلی علاقے، جو ایک عرصے تک پسماندگی، بدامنی اور ریاستی بے توجہی کا شکار رہے، اب ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بنتے جا رہے ہیں۔ مگر اس بار یہ توجہ صرف سیکیورٹی یا سیاسی مفاد تک محدود نہیں، بلکہ ان علاقوں میں موجود قیمتی معدنی وسائل اور جغرافیائی اہمیت نے بین الاقوامی طاقتوں کی نظریں اپنی طرف کھینچ لی ہیں۔

حالیہ بیانات، سیاسی مطالبات اور بین الاقوامی رویے اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ قبائلی علاقے آنے والے وقتوں میں ایک بار پھر جیو پولیٹیکل میدانِ جنگ بن سکتے ہیں۔

حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی تعریف کی، جو کہ بظاہر خوش آئند لگتی ہے، لیکن اگر عالمی سیاست کی باریکیوں کو سمجھا جائے تو اس میں محض خلوص کی توقع کرنا سادہ لوحی ہوگی۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سونا، تیل، گیس، کوئلہ، اور زمینی دھاتیں (Rare Earth Metals) جیسے بیش قیمت معدنی ذخائر موجود ہیں۔ یہی وہ خزانے ہیں جو دنیا بھر کی بڑی طاقتوں، بالخصوص امریکہ، کی دلچسپی کا اصل مرکز ہیں۔

ٹرمپ کی جانب سے بار بار پاک بھارت جنگ کا ذکر، محض جنوبی ایشیا کی کشیدہ صورتحال کی نشاندہی نہیں، بلکہ یہ ایک خاص حکمت عملی کا حصہ بھی ہو سکتا ہے۔ امریکہ ایسے بیانات کے ذریعے خود کو ثالث اور امن کا رکھوالا بنا کر خطے میں اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ یہ بیانات دراصل امریکہ کے فوجی و معاشی مفادات کو جواز فراہم کرتے ہیں، جس کا مقصد ہے کہ خطہ کبھی بھی مکمل طور پر مستحکم نہ ہو۔

امریکہ، جو چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے ہر ممکن علاقائی چال کھیل رہا ہے۔ پاکستان میں معاشی، دفاعی اور تکنیکی رسائی چاہتا ہے اور قبائلی علاقے اس میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔

اب ایک بار پھر مولانا فضل الرحمان کی جانب سے قبائلی علاقوں کو ایک الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ سامنے آیا ہے، جو بظاہر ایک انتظامی تجویز لگتا ہے، لیکن کئی حلقوں میں اس پر سنجیدہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

کیا یہ مطالبہ مقامی عوام کی مشاورت سے سامنے آیا ہے، یا یہ بالائی سطح پر بنائے گئے کسی ایجنڈے کا حصہ ہے؟
کیا اس کا مقصد قبائلی علاقوں کی قومی وحدت سے علیحدگی کی راہ ہموار کرنا ہے؟ اور کہیں یہ قدم ان عالمی طاقتوں کو راستہ فراہم کرنے کے لیے تو نہیں، جو ان علاقوں میں معدنیات اور عسکری اثرات کا خواب دیکھ رہی ہیں؟

یہ تمام سوالات اس لیے بھی اہم ہیں کہ قبائلی علاقے کئی دہائیوں بعد قومی دھارے میں شامل ہوئے ہیں۔ اس نازک مرحلے پر ان کی سیاسی حیثیت کو بار بار تبدیل کرنا غیر مستحکم کرنے والی پالیسی ہو سکتی ہے۔

اس پس منظر میں قبائلی علاقوں میں کسی نئی سیاسی تقسیم یا انتظامی تبدیلی کے وقت بین الاقوامی دباؤ اور مفادات کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔

قبائلی علاقے نہ صرف معدنی وسائل سے مالامال ہیں بلکہ ان کی سرحدی پوزیشن اور عسکری اہمیت نے انہیں عالمی سیاست کا ایک حساس پوائنٹ بنا دیا ہے۔ لہٰذا، مقامی قیادت اور عوام کو مکمل ہوشیاری اور یکجہتی کے ساتھ اپنے وسائل پر نظر رکھنی چاہیے۔ ہر بیرونی تجویز یا اندرونی مطالبے کو علاقائی مفاد، شفافیت اور خودمختاری کی بنیاد پر جانچنا چاہیے۔ میڈیا، دانشوروں اور نوجوان نسل کو ان موضوعات پر بحث و مباحثہ تیز کرنا ہوگا تاکہ کوئی خفیہ منصوبہ خاموشی سے نافذ نہ ہو جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts