GHAG

مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے اور مستقل امن کے لئے چند تجاویز و حکمت عملیاں

شیراز پراچہ

سابقہ قبائلی علاقوں میں ماضی میں کیے گئے فوجی آپریشن کئ وجوہات کی وجہ سے مطلوبہ نتائج نہ دے سکے۔ ان میں پہلی اور سب سے بڑی وجہ ماضی کے فوجی جرنیلوں اور انکے زیر کنٹرول خفیہ ایجنسیوں کے ایک سے زائد ایجنڈے تھے۔

جنرل یحیٰی خان کے دور سے مذھبی انتہا پسندوں اور مسلح مذھبی جتھوں کو خارجہ اور سیکورٹی ٹول کے طور پر استمعال کیا جاتا رہا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے اس پالیسی کو عروج دیا۔ ضیاء الحق کے بعد کسی آرمی چیف اور آ ئ ایس آ ئ چیف نے اس پالیسی کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ فوجی دماغ مذھبی سوچ اور مذھب کے بطور ہتھیار استمعال کو درست سمجھتے رہے ہیں۔ بعض جرنیلوں کے نزدیک مذھبی اور جہادی جذبے سے سر شار مسلح گروہ جو بلا معاوضہ لڑنے مرنے کو تیار رہتے اور اسے ایک مذھبی فریضہ اور مقدس جہاد سمھجتے ہیں، ایسے گروہ اور مذھبی جماعتیں پاکستان کے دفاعی اثاثے اور پہلی دفاعی لائن ہیں۔ جماعت اسلامی اور اسکی مسلح تنظیموں الشمس اور البدر نے پاکستانی فوج کے ھمراہ بنگالی عوام کے خلاف ایسی خونی کاروائیاں کی تھیں جنہیں بنگلہ دیش کے لوگ ابھی تک نہیں بھول پائے۔

دوسرا بڑا مسلہء جنرل صاحبان کا خود کو عقل کل سمجھنا ہے۔ وہ عوام اور ان کے نمائندوں سے بالا بالا اور عوام کو اعتماد میں لیے بغیر بہت بڑے، بڑے فیصلے کرتے رہے اور من مانی پالیسیاں اپناتے رہے ہیں۔ انکے ان فیصلوں اور پالیسیوں نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔ ھمارے اکثر مسائل اور جاری بحرانوں کی وجہ سابقہ جرنیلوں کی تباہی کن پالیسیاں اور اقدامات تھے۔

ایک دوسری بڑی وجہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذھبیت اور مذھبی انتہا پسندی ہے۔ ویسے تو ہندو ثقافت کے زیر اثر ہندوستانی مسلمانوں کا اسلام دنیا بھر کے اسلام سے مختلف تھا مگر پاکستان بننے کے بعد اسے رفتہ رفتہ ایک کٹر مذھبی ریاست میں تبدیل کرنے سے پاکستانی معاشرہ ایک انتہا پسند، تنگ نظر اور انتہائی عدم برداشت والا معاشرہ بن چکا ہے۔ یہ سلسلہ ضیاء کے دور سے شروع ہوا اور روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ معمولی مذھبی اختلاف پر سرعام قتل وغارت، ہجوم کی جانب سے لوگوں کو سنگسار کرنا ، زندہ جلانا، لاشوں کو سڑکوں پر گھسیٹنا اور جلانا، بہنوں، بیٹییوں، بیویوں کا غیر ت کے نام پر قتل ، مدرسوں میں اساتذہ کے ہاتھوں معصوم بچوں کے قتل، مولوی صاحبان اور مدرسوں کے اساتذہ کی بچوں سے جنسی زیادتیاں اور ان پر شدید جسمانی تشدد جیسی تمام سنگین بیماریارں اور جرائم مذھبی انتہا پسندی کا نتیجہ ہیں۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ معاشرہ ان جرائم کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔

پاکستان کا نام نہاد تعلیم یافتہ طبقہ بھی جان بوجھ کر یا انجانے میں انتہا پسندی کو فروغ دیتا ہے۔ پاکستانی یونیورسٹیوں اور دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر میں حکام کی سرپرستی میں انتہا پسندی ، تنگ نظری ، عدم برداشت ، عدم مساوات کی ترویج، حوصلہ افزائی اور تلقین کی جاتی ہے۔ ایسا کرنے والوں کو محسوس بھی نہیں ہوتا کہ انکا رویہ غلط اور بیمار ہے۔ اپنے تیئں وہ بہت مثبت، عین اسلامی اور درست کررہے ہوتے ہیں۔

درجہ بالا انتہائی سنگین ، پیچیدہ ، غیر صحت مندانہ اور غیر انسانی رویوں کی وجہ ھمارا ناقص تعلیمی نصاب اور سب سے بڑھ کر ھماری ادھار لی گئی اسلام کی سمجھ ہے جس کی بنیاد ایک طرف ساتویں سے گیارہویں صدی کے ملاؤ ں کے باھمی اختلافات اور رقابتیں اور ان سے جنم لینے والے فرق وارانہ اختلافات ہیں تو دوسری طرف انیسویں صدی کے ہندوستان کے وہ مولوی ہیں جنہوں نے یہاں دیوبندی، بریلوی ، قادیانی اور دیگر فرقے قائم کئے۔ انگریز وں نے انکی حوصلہ افزائی کی کیونکہ مسلمانوں کی باھمی تقسیم میں انگریز کا فائدہ تھا۔

بیسویں صدی کے اوائل میں تبلیغی جماعت کا قیام بھی مسلمانوں میں موجود مزاحمت کے خاتمے کی ترکیب تھی۔ کیمونسٹ انقلابات کی راہ روکنے کے لیے امریکہ اور برطانیہ نے جہادی اسلام کو فروغ دیا جسے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی جیسے لوگ پہلے ہی ایجاد کر چکے تھے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ھم جس دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں اور ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں اس سے نکلنا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے ۔ اس کے لیے سب سے پہلے نیت، مضبوط ارادے اور بے پناہ جرات کی ضرورت ہے۔ خو د سے لڑنے، اپنے خیالات، تصورات اور جسے ہم درست اور بلکل حتمی سمجھتے ہیں ان باتوں پر ازسرنو غور وفکر کی ضرورت ہے۔ مخالف اور مختلف نظریات کو کھلے ذھن سے پرکھنے اور تسلیم اور اختیار کرنے اور اپنی اصلاح کے لیے تیار ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ سب ایک علمی اور ذھنی انقلاب ہوگا ایک نئی شروعات ہوگی۔ تاھم اس تبد یلی کے لیے طویل عرصہ اور جہدوجہد درکار ہے۔

صورت حال کو شارٹ ٹرم میں بہتر بنانے کے لئے صیح سمت میں پہلا قدم پاکستانی فوج کو اٹھانا ہو گا۔ فوج کی شرکت کے بغیر مختلف سیاسی جماعتوں کی امن کانفرنسیں بیکار ہیں۔ امن تب قائم ہو سکتا ہے جب فوج اور اسکی ایجنسیوں کے حکام، عوامی نمائندوں، سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور سماج کے دیگر طبقات کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھیں اور انھیں اعتماد میں لیں ۔ فوج سمیت تمام شرکاء اس نکتے پر اتفاق کریں کہ مذھبی انتہا پسندی، دھشت گردی اور تشدد کو روکنا ہو گا ۔

خیبر پختونخوا کے موجودہ وزیراعلی ایک ناقابل اعتبار شخص ہیں اور ان پر انتہا پسندوں سے روابط رکھنے کا بھی الزام ہے۔ انکے مشیر اطلاعات انتہا پسندوں کو دو بارہ پاکستان لانے کے زمہ داروں میں سے ایک ہیں۔ وہ جماعت اسلامی کے رکن اور جہادی رہ چکے ہیں لہذا علی امین گنڈاپور اور انکی ٹیم پر اعتماد کرنا بہت مشکل ہے تاھم گنڈاپور کی صوبے بھر ڈویزن کی سطح پر ایسے جرگے منعقد کرنے کی تجویز جن میں عوام، فوج، انتظامیہ کے نمائندے اور سیاستدان دھشت گردی کے مسلئے کے حل کے لئے اکٹھے بیٹھیں ایک اچھی تجویز اور درست سمت میں پہلا قدم ہوگا۔ ایسی بیٹھکیں دیہات اور قصبات کی سطح پر ہونی چاہئیں ۔ ہر سطح پر ایسی مستقل کمیٹیاں قائم کی جائیں جن میں عوام، فوج، پولیس، انتظامیہ ، مقامی منتخب نمائندے ، مساجد ومدارس کے مہتم اور پیش امام شامل ہوں۔ پائدار امن ان تمام سٹیک ہولڈرز کے باھمی اعتماد اور تعاون کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا۔

مذہبی انتہا پسندی کا مسئلہ فوج کی ماضی کی پالیسیوں کا پیدا کردہ ہے لہذا اسکے مستقل حل کی زیادہ ذمہ داری بھی فوج پر عائد ہوتی ہے۔ موجودہ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر خود عالم دین اور ماضی کے لالچی اور خود غرض جرنیلوں سے بہت مختلف ہیں اور وہ ماضی کے مس ایڈونچر ز کو درست کر رہے ہیں اس لئے ان سے توقعات بھی ذیادہ ہیں۔ فوج کو عوام کو یقین دلانا ہو گا کہ وہ مذہبی انتہا پسندی کا مکمل خاتمہ چاہتی ہے اور فوج یا اسکا کوئی ادارہ آئندہ کسی مذہبی انتہا پسند گروہ کی سرپرستی نہیں کرے گا اور ایسے گروہوں کو بطور پراکسی استمعال کرنے کی پالیسی ھمیشہ، ھمیشہ کے لئے ترک کر دی گئی ہے ۔ اس قسم کا مسمم اعلان و ارادہ اور اس پر من و عمل، امن اور استحکام کے دروازے کھول دے گا۔

انتہا پسندی اور دھشت گردی کا شکار علاقوں کے عوام کی زمہ داری ہے کہ وہ ہرگز دھشتگردوں کے سہولت کار نہ بنیں اور دین کے نام پر انتہا پسندی کا پرچار کرنے والوں کو عوامی طاقت اور باھمی اتفاق سے روکیں اور انکی نشان دہی کریں۔

معاشرے کو انتہا پسندی سے مستقل نجات دلانے اور پاکستان کو ایک نارمل اور پُرامن مسلمان اکثریتی ریاست بنانے کے لئے طویل المدتی منصوبہ بندی اور پالیسوں کی بھی ضرورت ہے۔ میں اس سلسلے میں ذیل میں صرف چند اقدامات تجویز کروں گا۔ میں جانتا ہوں کہ بعض لوگوں کو آج تو شاید یہ تجاویز پسند نہ آئیں مگر یہ اور ایسے دیگر بہت سے اقدامات کیے بغیر ھم ایک نارمل ریاست کبھی نہیں بن سکیں گے۔

سب سے پہلے ھمیں مساجد اور مزہبی مدارس کو امن، محبت، برداشت اور بھائی چارے کے مراکز میں تبدیل کر کے وہاں سے نفرت اور تشدد کا پرچار روکنا ہو گا۔ مساجد دینی اور دنیاوی علوم کے مراکز اور جائے امان ہونی چاہئیں۔

بغیر پیشگی سرکاری اجازت اور منظوری کے مساجد کی تعمیر نہیں ہونی چاہیے۔ فرقہ وانہ بنیادوں پر مساجد اور مدارس پر پابندی ہو۔ تمام مسالک اور فرقوں کے پیروکار ایک ہی مسجد میں عبادت کر سکیں۔ مساجد اور مدارس کی رجسٹریشن لازمی ہو۔ مساجد میں لاؤڈ سپیکر کو صرف اذان کے لئے استمعال کیا جائے اور اسکی آواز مدھم رکھی جائے۔

ایک ہی شہر یا قصبے میں تمام مساجد کے لئے اذان کا ایک ہی وقت مقرر ہو جو شہر کی منتخب انتظامیہ طے کرے گی۔ نماز جمعہ کا خطبہ تحریری ہونا چاہئے اور تمام ملک یا صوبے میں ایک ہی خطبہ ہو جس کی منظوری اسلامی نظریاتی کونسل اور منتخب حکومتوں کے نمائندے دیں۔

تعلیمی نصاب کو ازسر ترتیب دیا جانا چاہیے اور اس میں سے غیر تصدیق شدہ تاریخی مواد اور فرقہ وارنہ تشریحات نکالنا لازمی ہے۔ اسلامی تاریخ کی کتب کی ترتیب اور ان میں موجود مواد کی منظوری حکومت کا ایک ایسا بورڈ دے جو تاریخ کے مستند اور بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہرین پر مشتمل ہو۔ سکولوں اور مدارس میں اسلامی تاریخ کی وہ کتب بھی پڑھائی جائیں جو مختلف غیر مسلم تاریخ دانوں اور سکالرز نے لکھی ہیں تا کہ ھمارے بچے اسلام کو غیر مسلموں کے نکتہ نظر سے بھی چانچ سکیں اور تقابلی جائزہ لے سکیں۔ اس طرح وہ اسلامی تاریخ کو غیر فرقہ وارنہ انداز میں جان سکیں گے۔

علاؤ ازیں پرائمری کی سطح سے عربی زبان کو لازمی قرار دیکر پڑھایا اور سکھایا جائے۔ عربی ادب اور عرب ادبی زبان بھی پڑھائی جائے کیونکہ قرآن میں بہت سی باتیں استعاروں میں کی گئی ہیں لہذا پاکستانی مسلمانوں کو عربی پر مکمل اور گہری دسترس ہونی چاہیے تاکہ وہ قرآن اور اسکے پیغام کو بغیر کسی فرقہ وارنہ تعصب سے اسکے پورے سیاق وسباق سے ازخود سمجھ سکیں۔

مساجد کے امام اور مدارس کے اساتذہ کا رتبہ واحترام رسمی طور پر بڑھانا چاہئے۔
صیح معنوں میں ایسے سکالرز کو امام مسجد مقر ر کیا جائے جنہیں دینی اور دنیاوی علوم پر مساوی عبور اور عربی، انگریزی اور پاکستان کی قومی زبانوں پر مکمل دسترس ہو۔ مساجد کے امام اور مدارس کے اساتذہ کے لئے مذھبی سند کے ساتھ کم از کم گریجویشن کی ڈگری لازمی ہو۔ ہر امام مسجد اور مدرسے کے استاد کو ٹیسٹ انٹرویو کے ذریعے منتخب کیا جائے۔ ہر درخواست دھندہ کا تفصیلی نفسیاتی معائنہ لازمی ہو۔ صرف نفسیاتی ٹیسٹ پاس کرنے والے ہی امام مسجد یا مدارس کے اساتذہ مقر ر ہو سکیں اور ان کے لئے ہر دو سال بعد یہ معائنہ کروانا لازمی ہو۔

مساجد کے امام اور مدارس کے اساتذہ کی ابتدائی تقرری گریڈ سترہ میں کی جائے اور مزید تعلیم اور تجربے کے ساتھ وہ گریڈ بائیس تک ترقی کرسکیں۔ مساجد کے امام اور مدارس کے اساتذہ کی ریٹائرمنٹ کی عمر پچھتر برس ہو اور انھیں ایک جج کے مساوی پینشن دی جائے۔

درج بالا صرف چند تجاویز ہیں ان میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ مقصد ایک متوازن اور پُرامن معاشرے کے لیے مذہب کے نام پر انتہا پسندی اور جہالت کا خاتمہ اور اسلام کو امن و سلامتی کے دین طور پر تمام عالم کے لئے محبت، باھمی احترام، رواداری، انصاف مساوات اور باعث رحمت دین ثابت کرنا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts