GHAG

جرگے، کانفرنسیں اور نتائج صفر

جرگے، کانفرنسیں اور نتائج صفر

اے وسیم خٹک

قبائلی اضلاع سمیت پورے خیبر پختونخوا کی حالیہ صورتحال اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ یہ خطہ ہمیشہ سے ایک تجربہ گاہ رہا ہے۔ یہاں پر دہائیوں سے ایسے تجربات کئے جاتے ہیں جن کے نتائج اس بدقسمت صوبے کے عوام کو اپنی جان، مال اور عزت سے چکانے پڑتے ہیں۔ کبھی مذہب کے نام پر، کبھی قومیت کے نام پر اور کبھی تبدیلی کے خوشنما نعرے دے کر لوگوں کو ایک امید دلائی جاتی ہے مگر نتیجہ ہمیشہ وہی رہتا ہے — خون خرابہ، بے گناہوں کا قتل عام، بے یقینی، غربت اور بدامنی۔

آج قبائلی اضلاع میں مختلف الخیال جماعتیں اپنے اپنے مفادات یا اپنے اپنے نظریات کے مطابق جرگے منعقد کر رہی ہیں۔ کوئی المرکز اسلامی میں اکٹھا ہورہا ہے، کوئی وزیر اعلیٰ ہاؤس میں بیٹھک سجا رہا ہے، تو کوئی باچا خان مرکز میں جرگہ بلا رہا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام بھی اپنے پلیٹ فارم سے الگ جرگہ کرتی ہے۔ سب کا موضوع ایک ہی ہے: قبائلی اضلاع میں قتل و غارتگری کا خاتمہ۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب مقصد ایک ہے تو آواز ایک کیوں نہیں؟ آخر یہ کیسی سیاست ہے جس میں خون خرابے کے خلاف آوازیں بھی الگ الگ ہیں؟ کیا قبائلی عوام کا لہو اب بھی ان سیاسی طاقتوں کے لئے کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتا کہ وہ کم از کم اس نکتے پر یک زبان ہوجائیں؟

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ خیبر پختونخوا میں تجربات کی ایک طویل داستان ہے۔ ایم ایم اے بنائی گئی تو مذہب کے نام پر ووٹ لیا گیا۔ مولویوں کو ایوانوں میں پہنچایا گیا، پھر ان سے دل بھر گیا تو 2013 میں پی ٹی آئی کو اس صوبے پر مسلط کیا گیا۔ 2018 میں اسے مکمل اکثریت دی گئی، 2023 میں بھی پھر انہی نعروں کے ساتھ کے پی کو پی ٹی آئی کے حوالے کیا گیا۔ اس دوران دہشت گردی کے بے شمار واقعات ہوئے۔ پاڑہ چنار کا لہو آج تک خشک نہیں ہوا، بنوں اور لکی مروت آج بھی دھماکوں کی زد میں ہیں۔ باجوڑ جیسے علاقے جہاں امید کی ایک کرن نظر آتی تھی، دوبارہ خون میں نہلائے گئے۔ پولیس اور آرمی پر حملے معمول بنے رہے۔ کبھی کوہستان جیسے سیکنڈل سامنے آئے تو کبھی گندم چوری کی داستانیں۔ کبھی ایٹا جیسے ادارے کے سکینڈلز عوام کے سامنے آئے تو کبھی یونیورسٹیوں کی سیاست نے علم کی جگہ انتشار کو فروغ دیا۔ مدراس کے بچوں پر ظلم کی خبریں زبان زد عام ہیں۔ ٹرانسجینڈر افراد کا قتل، بچوں کے اغواء، خواتین کے ساتھ زیادتی ہر دردناک داستان اسی صوبے سے اٹھتی ہے۔

پھر فاٹا کا انضمام ہوا۔ لوگوں کو ترقی، روزگار، امن کی نوید سنائی گئی۔ لیکن بدلے میں قبائلی عوام کو کیا ملا؟ وہی بارود کی بو، وہی بداعتمادی اور اب پھر وہی پرانے جرگے اور کانفرنسیں۔ آج منظور پشتین کی آواز سنائی دیتی ہے، کل کوئی اور لیڈر جرگے کی کال دیتا ہے۔ سب اپنی جگہ مگر کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ ایک ہی میز پر بیٹھ کر فیصلہ کریں کہ اب مزید کسی ماں کا بیٹا بے گناہ نہیں مرے گا۔

اس صوبے کی بدقسمتی یہ ہے کہ وفاق سمیت صوبائی سیاستدانوں نے بھی اسے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ جب باقی صوبوں، پنجاب اور سندھ میں ترقی کے منصوبے بنتے ہیں، صنعتیں لگتی ہیں، روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں، تو خیبر پختونخوا میں بم دھماکے گونجتے ہیں، جنازے اٹھتے ہیں اور میڈیا چند دن شور مچاکر خاموش ہوجاتا ہے۔ بلوچستان کی طرح کے پی بھی پسماندگی، استحصال اور بے یقینی کی تصویر بنا ہوا ہے۔

اب وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے آل پارٹیز کانفرنس طلب کی ہے۔ اچھی بات ہے، مگر کیا اس کا نتیجہ بھی روایتی جرگوں کی طرح صرف ایک تصویری سیشن ہوگا؟ یا واقعی کچھ ٹھوس فیصلے ہوں گے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب آنے والا وقت دے گا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کو اب انا اور اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا۔ اگر یہ پارٹیاں واقعی قبائلی اضلاع میں امن چاہتی ہیں تو پھر انہیں مشترکہ پالیسی بنانی ہوگی۔ ورنہ سیاست بھی چلتی رہے گی، جرگے بھی ہوتے رہیں گے، کانفرنسیں بھی منعقد ہوں گی اور قبائلی اضلاع کے معصوم لوگ پھر کسی بم دھماکے میں، کسی فائرنگ کی زد میں، یا کسی اور کھیل کا ایندھن بنتے رہیں گے۔

فیصلہ اب بھی انھی کے ہاتھ میں ہے۔ اگر یہ سب متحد نہ ہوئے تو یاد رکھیں، تجربے بھی چلتے رہیں گے، قبریں بھی کھودتی رہیں گی اور قبائلی اضلاع کی نسلیں بدامنی، غربت اور خوف کی تاریکیوں میں پلتی رہیں گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts