GHAG

ٹیرر فنانسنگ اور انسداد دہشتگری کی عدالتیں

عرفان خان

پاکستان میں دہشتگردی ،دہشتگردوں کی سہولت کاری ،حمایت اور مالی معاونت میں ہندوستان ، ایران اور افغانستان سر فہرست ہیں ۔ افغانستان ہمیشہ سے پاکستان کے خلاف دہشتگردی کا گڑھ رہا ہے۔ دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنا ہو یا پھر جدید امریکہ اسلحہ ،ان تمام کے پیچھے افغانستان کا ہی ہاتھ رہا ہے اورحالیہ جتنے بھی بڑے بڑے حملے چاہے وہ سیکورٹی فورسسز، ائیر بیس یا پھر چائنیز انجینئرز ہو،ان سب حملو ں کی نہ صرف منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی بلکہ بیشتر حملوں میں خودکش بمبار بھی افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوئے۔

پاکستان اور پاک فوج کو کمزور کرنے کے لئے دہشت گرد تنظیمیں ایک دوسرے کے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہیں، چاہے وہ حملوں کی منصوبہ بندی ہو، انٹیلجنس معلومات کی فراہمی یا پھر ایک دوسرے کو ہتھیار اورمدد فراہم کر نا ہوں ،بیشتر تنظیمیں ایسا ہی کر رہی ہیں ۔خاص طور پر افغانستان میں مجید بر یگیڈ  اور ٹی ٹی پی ایک دوسرے سے تعاون کرتی ہیں اور ان سب کا نشانہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز  ہی ہوتی ہیں۔ ان کے بیس کیمپس اکثر قریب قریب ہوتے ہیں، ہتھیار بھی ایک جیسے ہوتے ہیں، فنڈنگ بھی ایک ہی جگہ سے آتی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کوکنٹرول کرنے والا دماغ ایک ہی ہے۔

دشمن ممالک کے بعد پاکستان میں دہشتگردی سے اگر کسی کا مفاد وابستہ ہے تو وہ پاکستان کی مغربی سرحد پر بیٹھا سمگلر مافیا ہے۔ پاکستان کی مغربی سرحد دنیا کی مشکل ترین سرحد ہے جس کی لمبائی تقریباً ساڑھے تین ہزار کلو میٹر ہے۔اس سرحد پر روزانہ کی بنیاد پر  1 ارب 80 کروڑ روپے کا صرف ایرانی پٹرول سمگل ہو کر آتا ہے (بارڈر پر سختی سے پہلے یہ مقدار اس سے دگنی تھی)، ٹائر، کھاد اور دیگربے شمار چیزیں اس کے علاوہ ہیں۔ یہ اربوں ڈالر صرف چند سمگلروں کے پاس جاتے ہیں۔ لغاڑی کے نام سے افغانوں کی ایک بڑی تعداد روزانہ بغیر ضروری کاغذات کے پاک افغان سرحد پر نقل و حمل کرتی ہے۔ یہ لغاڑی سالانہ اربوں ڈالر کا سامان پاکستان سمگل کرتے ہیں۔

اسی طرح دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے ملک بھر میں خصوصی انسداد دہشتگردی عدالتیں بنائی گئی ہیں۔ لیکن حیران کن طور پر جہاں سب سے زیادہ دہشتگردی ہے  وہاں سب سے کم عدالتیں بنائی گئی ہیں۔ یعنی پنجاب میں 23 سندھ میں 32، بلوچستان میں 19 اور خبیر پختونخوا میں 13 عدالتیں ہیں۔ان عدالتوں میں دہشت گردی سے متعلق 605 کیسز زیر التواء ہیں۔ ان میں خیبر پختو نخوا میں 195 اور بلوچستان میں 208 کیسز زیر التواء ہیں۔ اسی طرح اب تک ان عدالتوں سے دہشتگردوں کوکل 217 سزائیں ہوئی ہیں۔ جن میں سے پنجاب میں 152 پختونخوا میں 14 اور بلوچستان میں محض 10 سزائیں سنائی گئی ہیں۔ جبکہ 80 فیصد دہشتگردی خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہو رہی ہے۔

خیبر پختو نخوا حکومت کو دہشتگردی سے نمٹنے کے لئے 400 ارب روپے دیئے گئے تھے۔ اتنی بڑی رقم میں انہوں نے صرف پشاور میں سیف سٹی کیمرے تک نہیں لگائے۔ نہ وہاں دہشتگردی کے خلاف پولیس یا سی ٹی ڈی کی مطلو بہ تربیت کی گئی۔  جبکہ ان سے لڑنے کیلئے کل سی ٹی ڈی فورس کی تعد اد 536 افراد پر مشتمل ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں اے ٹی سی کی 9عد التیں ہیں جن کیلئے صرف ایک پراسیکیوٹر رکھا گیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts