GHAG

بنوں واقعہ، فیک نیوز اور درکار اقدامات

عقیل یوسفزئی

یہ بات قابل تشویش ہے کہ بنوں کے واقعے کو مختلف پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ کی ” دشمنی” میں نہ صرف یہ کہ پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کررہی ہیں بلکہ بعض حلقے لاشوں کی سیاست کرتے ہوئے اس قسم کا تاثر بھی دے رہے ہیں کہ ریاست شاید پشتونوں کی نسل کشی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ سب سے عجیب بلکہ منفی کردار صوبے کی حکمران جماعت تحریک انصاف کی جانب سے دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ ابتدائی طور پر جو تحقیقات سامنے آئی ہیں اس کے مطابق صوبائی حکومت جہاں ایک پرامن ریلی کو سبوتاژ کرنے کے ایک فریق کے طور پر سامنے آئی اور اس کے عہدے داروں نے جذباتی کارکنوں کو ساتھ واقع فوجی چیک پوسٹوں پر چڑھائی کی ترغیب دی وہاں واقعے کے فوراً بعد انتہائی جھوٹا پروپیگنڈہ اور فیک نیوز کی مہم چلاکر درجنوں مظاہرین کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات فراہم کیں تاکہ ریاست کو بدنام کرتے ہوئے عوام کو مشتمل کیا جائے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان پارٹیوں نے بھی اس پروپیگنڈے کو پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جو کہ پی ٹی آئی کی مخالف ہیں اور ہر کسی نے عوامی جذبات کو پرتشدد بنانے کی مہم میں حصہ ڈال دیا ۔ رپورٹس کے مطابق مذکورہ پارٹی سمیت بعض مقامی گروپوں نے تقریباً 300 نوجوانوں اور بچوں کو کینٹ ایریا کے اس حصے میں فوج کے خلاف نعرے بازی اور پتھراؤ وغیرہ کا ” ٹاسک” دیا جہاں فوجی اہلکار کینٹ کی حفاظت کے لیے ڈیوٹی دے رہے تھے ۔ کوشش کی گئی کہ ان نوجوانوں اور بچوں سے ایسی حرکتیں کرادی جائیں کہ فوجی اہلکار اپنے دفاع میں فائرنگ کرکے ان کے عزائم کی تکمیل کا راستہ ہموار کریں اور ان کو لاشوں کی سیاست کا ایک اور موقع ہاتھ آجائیں ۔ بھگڈر کے نتیجے میں زخمی ہونے والے افراد کو بھی فوج کی فائرنگ کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ۔

دوسری بات یہ سامنے آئی کہ جب مشتعل مظاہرین کینٹ ایریا کی طرف جارہے تھے تو پولیس نے ان کو منع کرنے یا روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی حالانکہ یہ ان کی ذمہ داری بنتی تھی ۔ فوج اس لئے بھی الرٹ پوزیشن میں تھی کہ 15 جولائی کو اسی ایریا میں اس پر ایک خودکش حملہ کرایا گیا تھا جس کے نتیجے میں فوج کے 8 جوان شہید ہوگئے تھے ۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی نے ایک منصوبہ بندی کے ذریعے 9 مئی کے واقعات کو دہرانے کی باقاعدہ پلاننگ کی تھی اور اس مقصد کیلئے ایک پرامن ریلی کو بطور ہتھیار استعمال کیا تاکہ فوج اور ریاست کو ایک بار پھر عوام کے مدقابل لاکر ایک ایسے علاقے اور صوبے کو فوج کے خلاف پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کیا جائے جو کہ پہلے ہی سے حالت جنگ میں ہے اور فورسز کو روزانہ کی بنیاد پر حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ سیکورٹی چیلنجز سے نمٹنے میں صوبائی حکومت کا بنیادی کردار ہے تاہم پہلی بار صوبے کی حکومت ایسی پالیسی پر چلتی دکھائی دے رہی ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ دہشت گردوں کی معاونت کررہی ہے بلکہ عوام اور فوج کے خلاف اس طرح کی خطرناک ” مہم جوئی” میں فریق بھی بنی ہوئی ہے ۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ اس تمام صورتحال کے دوران جہاں صوبائی حکومت ریاست کے خلاف گئی وہاں تحریک انصاف کی دو اہم عہدے داروں شاندانہ گلزار اور مشال یوسفزئی نے وومن کارڈز استعمال کرتے ہوئے بعض ریاست مخالف بیانات جاری کیے اور اس پارٹی کے حامی متعدد یو ٹیوبرز نے یہ کہنا شروع کردیا کہ پشتون عوام پاکستانی ریاست کے خلاف بغاوت پر اتر آئے ہیں ۔ بعض نے تو یہاں تک کہا کہ ٹی ٹی پی ، پی ٹی آئی اور پی ٹی ایم اس خودساختہ ” بغاوت” کے فریق ہیں کیونکہ یہ قوتیں ان کے بقول پشتونوں کی نمائندگی کررہی ہیں ۔ اس میں دو آراء ہیں ہی نہیں کہ پاکستان کے تمام شہریوں کو احتجاج اور اس نوعیت کی ریلیوں کا حق حاصل ہے تاہم اس بات کی اجازت کسی کو نہیں دی جاسکتی کہ وہ عوام اور سیکورٹی فورسز کو لڑانے کا ایجنڈا آگے بڑھائیں ۔ اس واقعے کی آزادانہ انکوائری ہونی چاہیے اور وفاقی حکومت اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے کیونکہ صوبائی حکومت ایسے معاملات میں ریاست دشمنی میں فریق بن گئی ہے اور معاملات کو ان کی رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا ۔ اس کے علاوہ ” ڈیجیٹل دہشت گردوں” کا سختی کے ساتھ راستہ روکنے کی بھی اشد ضرورت ہے کیونکہ صوبے کے مخصوص حالات اور چیلنجز کے تناظر میں کسی مصلحت یا نرمی کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے اور ریاست کو بعض غیر مقبول فیصلے کرنا پڑیں گے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts