GHAG

دہشتگردی اور انتشار گردی کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل دہشتگردی بھی

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے پیر کے روز تفصیلی میڈیا بریفنگ میں ملک کو درپیش چیلنجز اور مسائل پر کھل کر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو دہشت گردوں اور انتشاریوں کے علاوہ ان ” ڈیجیٹل دہشت گردوں” کا بھی سامنا ہے جو کہ کروڑوں ، اربوں کی سرمایہ کاری کا حصہ بن کر پاکستان اور اس کے اہم اداروں کے خلاف فیک نیوز اور منفی پروپیگنڈا کے علاوہ انتشار اور بداعتمادی پیدا کرنے کی منظم پلاننگ پر عمل پیرا ہیں، تاہم ریاست دہشت گردوں اور انتشاریوں کی طرح ان سے بھی پوری شدت اور طاقت کے ساتھ نمٹے گی ۔ پریس بریفنگ میں انہوں نے ” عزم استحکام” کو ایک مہم اور پلان قرار دیتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ بعض سیاسی حلقوں اور ڈیجیٹل دہشت گردوں نے اس کو ماضی کی طرح ایک روایتی فوجی آپریشن کا نام دیکر اس پر نہ صرف ابہام پیدا کیا بلکہ اس پر پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ بھی کی اور انتشار پھیلایا جس کی مثال بنوں واقعہ کی صورت میں دی جاسکتی ہے، جس کے دوران ایک مخصوص پارٹی نے حکومت میں رہتے ہوئے بھی پاک فوج کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ان کے بقول امن مارچ میں باقاعدہ دہشت گردی کی گئی اور 9 مئی کی شرپسندی کرنے کی کوشش کی گئی جس کو فوج نے صبر و تحمل سے ناکام بنادیا ۔ انہوں نے کہا کہ 9 مئی قانون ایسے عناصر کو رعایتیں دیتے ہوئے سزائیں نہیں دے گا تو انتشار پر قابو نہیں پایا جاسکے گا ۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے جو مؤقف اختیار کیا اس نے صورتحال اور چیلنجر کے علاوہ ریاست خصوصاً پاک فوج کی ترجیحات اور ٹارگٹس کو بالکل واضح کردیا ہے اور اس کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ دہشت گردی کے علاوہ انتشار گردی اور ڈیجیٹل دہشتگردی میں ملوث قوتوں ، گروپوں اور افراد کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی ۔

اس بریفنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے مرکزی امیرحافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ عزم استحکام سے متعلق جی ڈی آئی ایس پی آر کی وضاحت نے ابہام اور عوامی خوف کو کافی حد تک کم کردیا ہے اور عوام ایسی حکمت عملی کے خواہشمند ہیں جس کے نتیجے میں متاثرہ علاقوں کو محفوظ بنایا جائے اور جاری بدامنی پر قابو پایا جائے ۔

خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ ان کی حکومت اور پارٹی کو صورتحال کے ادراک کے علاوہ فورسز کی قربانیوں کا پورا احساس ہے اور صوبائی حکومت کی خواہش ہے کہ سیکورٹی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے نہ صرف یہ کہ اس کی تجاویز کو سنجیدہ لیا جائے بلکہ پولیس اور سی ٹی ڈی جیسے سول اداروں کو درکار سہولیات کی فراہمی کو بھی وفاقی حکومت یقینی بنائے ۔ ان کے مطابق بنوں کے واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنایا گیا ہے اور مسئلے کے حل کے لیے وزیر اعلیٰ نے مشران اور عمائدین پر مشتمل ایک جرگے سے مشاورت بھی کی ہے ۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر صحافی حماد حسن نے ” سنو ایف ایم پختونخوا ” سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ طے کرنا بہت ضروری ہوگیا ہے کہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ 9 مئی کے واقعات اور منفی پروپیگنڈا میں ملوث پی ٹی آئی ایک سیاسی پارٹی ہے بھی یا نہیں کیونکہ اس پارٹی نے پاکستان کی سیاست ، معاشرت اور صحافت سمیت ہر شعبے کو برباد کر کے رکھ دیا ہے ۔

سینئر تجزیہ کار احمد منصور نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈیجیٹل دہشتگردی نے  واقعتاً پاکستان کی ریاست اور عوام کے لیے ایک بڑے چیلنج کی شکل اختیار کرلی ہے اور لگ یہ رہا ہے کہ پاکستان کی مقتدر حلقے اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے زیرو ٹاولرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔

پشاور کے باصلاحیت صحافی عرفان خان کے مطابق خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نہ صرف دہشت گردی کے سنگین مسئلہ پر ابہام کی صورت حال سے دوچار ہے اور اس پر ” سہولت کاری” کے الزامات لگائے جاتے ہیں بلکہ اس کو بدترین نوعیت کی بیڈ گورننس کا بھی سامنا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ امن و امان کی صورتحال بے قابو ہوگئی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts