تحریر : ہدایت اللہ گل
خیبرپختونخوا کے روا یتی شہر بنو ں میں گذشتہ چند دنوں سے امن و امان کو جس منصو بے کے تحت تا راج کیا گیا، اسکی منصو بہ بندی کرنیوالوں نے بڑی با ریک بینی کیسا تھ تمام پہلو ؤ ں کو نظر میں رکھا ہوا تھا۔پے در پے کا رروا ئیو ں اورسیکیورٹی فورسز کیسا تھ جھڑپو ں سے یہی لگ رہا ہے کہ حالات کو خرا ب کرنیو الو ں نے اپنے اہدا ف کے حصو ل کیلئے کمال مہا ر ت کیساتھ تمام امور نمٹا دئیے تھے، امن کے نا م پر بہت بڑے مجمعے سے شر پسند و ں ہی نے فا ئد ہ اٹھا یا۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ سو شل میڈیا کو اک مرتبہ پھر ریاستی ادا رو ں اور کسی حد تک حکومت کیخلا ف بھی استعمال کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی۔
ہفتے کی را ت تیسرے پہر خبر چلا ئی گئی کہ بنو ں میں 193افراد کو شہید کر دیا گیا ہے، گھر وں پر آدھی را ت کے بعد سے گن شپ ہیلی کاپٹرز شیلنگ کر رہے ہیں، بنو ں کے نہتے لو گ گھروں میں محصو ر ہو کر رہ گئے ہیں اور ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھا ئے جا رہے ہیں، سا تھ ہی یہ پو سٹ بھی شیئر کی گئی کہ بنو ں میں سوشل میڈیا کے تمام لنکس ڈاؤ ن کر دئیے گئے ہیں، ہما ری آواز دنیا کو پہنچا ئی جا ئے کہ ریا ستی ادا رے بربریت پر اتر آئے ہیں۔ ظاہر ہے اس قسم کی خبروں سے بے چینی پھیلنی تھی اور موجو د ہ خرا ب حالات مزید خراب ہونا تھے، لا پرواہی کی انتہا یہ کہ مذکو رہ بالا پو سٹس کو اچھے خا صے پڑھے لکھے لو گوں نے بھی شیئر کرنے سے پہلے تحقیق نہیں کی، حالانکہ بنو ں کے حالات، ملکی قوانین اور دینی اعتبار سے بھی خبر کی تحقیق ضروری تھی، جو نہیں کی گئی۔ بنو ں سے ٹیلی فون پر معلومات حا صل کرنے کے بعد پتہ چلا کہ ایسی کوئی بات نہیں، سب جھوٹ اور بے سروپا پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ سچ یہ تھا کہ ایک نو جوان شہید اور 20 کے قریب زخمی تھے، یہ بھی کوئی کم نقصا ن نہیں لیکن 193 شہدا ء کے مقا بلے میں کچھ بھی نہیں۔
دوسری بڑی بات یہ کہ بنوں میں حالات سیکیورٹی فورسز پرپہلے حملے کے بعد اس وقت خرا ب ہو ئے جب اس آپریشن کے دوران 3 سویلین جان سے گزر گئے، جن میں دو کا تعلق بنو ں جبکہ ایک کا تعلق چا رسدہ سے تھا۔ 10دہشت گردوں کی ہلا کت کی خبر خیبر پختونخوا کے لو گو ں اور سیکیو رٹی اداروں کیلئے زیا دہ بڑی خبر نہیں تھی۔ انہی تین افراد کے سوگ میں مقامی تاجر وں نے مارچ کا فیصلہ کیا، جسے مختلف لوگو ں اور پارٹیو ں سے سپورٹ ملی، تقا ریر ہو ئے، صو با ئی حکومت کی نما ئند گی کی گئی، وزیر موصوف نے امن کا مطالبہ کر دیا، جو کہ ان کے فرا ئض منصبی میں شامل با ت تھی، اگر حکومت کے لو گ بھی فیصلہ کرنے کی بجا ئے مطالبا ت کرنے لگیں تو مسائل کیسے حل ہو نگے؟بہر حال جو کچھ بھی کرا یا گیا، اس کا فا ئدہ امن پسند و ں کو نہیں شرپسند و ں کو ہوا اور لا کھو ں کی تعدا د میں نکلے لوگو ں کی کو ششو ں کو برباد کر دیا گیا، رہی سہی کسر الٹے سیدھے سیا سی بیا نات نے پوری کر دی۔ ہر پارٹی نے اپنی خوا ہشات کے مطا بق حالات کو قابوکرنے کا مطالبہ کر دیا اور یو ں اپنے فرا ئض و ذمہ داریو ں سے سب دوش ہو گئے۔
زمینی صورتحال یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے، اس کو ٹھیک کرنے، زند گی کو رواں دواں رکھنے، معا شی سرگرمیو ں کو تقویت دینے اور تجا رت و سرما یہ کاری کیلئے ماحول بنانے کی اشد ضرورت ہے، مگر ان اہداف کا حصو ل کوئی معمولی کارنامہ نہیں، اس کے لئے روایت سے ہٹ کر سب کو مل بیٹھ کر غیر معمولی فیصلے کرنے ہو نگے، تب جا کر قوم پرستو ں، مذہبی را ہنما ؤ ں، مترقی قوتوں، اداروں اور حکومتوں کی ذمہ داری پو ری ہو گی۔ جب لوگوں کے بنیا دی مسا ئل بد امنی، مہنگا ئی، بے روزگا ری، بد کلا می اور غیر ذمہ داررانہ طرز فکر وعمل کو بند باندھنا ہو گا، اس کے لئے سب کو اپنا اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، نہیں تو حالات اپنا رخ خو د طے کرنے میں زیا دہ دیر نہیں لگا تی۔