گزشتہ روز وزیراعلیٰ ہاؤس میں اپیکس کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس کے انعقاد کا مقصد صوبے کی سیکورٹی صورتحال اور بنوں واقعہ کا جائزہ لینا تھا ۔خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اس اجلاس کی صدارت کی جبکہ کور کمانڈر پشاور سمیت اعلیٰ حکام کے علاوہ مختلف پارٹیوں کے نمائندے اور مشران بھی اجلاس میں شریک ہوئے ۔ بلاشبہ اس اجلاس کا انعقاد بہت پہلے ہونا چاہئے تھا کیونکہ جب سے تحریک انصاف کی موجودہ حکومت برسرِ اقتدار آئی ہے صوبے کی سیکورٹی صورتحال ابتر ہوگئی ہے تاہم حیرت اس وقت ہوئی جب اس اہم اجلاس میں خیبرپختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی کو دعوت نہیں دی گئی ۔
طریقہ کار اور ایس او پیز کے مطابق اپیکس کمیٹی کے کسی بھی اجلاس کی صدارت گورنر کرتے ہیں کیونکہ وہ وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے۔تاہم اس اجلاس میں خیبرپختونخوا کے گورنر کو اس لیے مدعو نہیں کیا گیا کہ وزیر اعلیٰ ذاتی اور سیاسی چپقلش میں وفاق کے نمائندے کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے۔وزیر اعلیٰ کے اس رویے سے یہ بات پھر سے ثابت ہوگئی ہے کہ صوبائی حکومت اور تحریک انصاف کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس اور ادراک نہیں ہے۔ یہ انتہائی تشویشناک بات ہے کہ جنگ زدہ صوبے کی حکومت اب بھی اتنی غیر سنجیدہ ہے۔
غگ ڈاٹ پی کے کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان گزشتہ ایک سال کے دوران حملوں کی تعداد کے حساب سے پورے صوبے میں سرفہرست ہے۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ وزیر اعلیٰ ، گورنر اور انسپکٹر جنرل پولیس تینوں کا تعلق اسی شہر یا ضلع سے ہے مگر تینوں کو اس صورتحال کا ادراک نہیں ہے اور اسی تسلسل میں بنوں کا واقعہ بھی سامنے آیا جس کے دوران ریاست کے خلاف دوسروں کے علاوہ صوبائی حکومت اور تحریک انصاف نے نہ صرف غفلت کا مظاہرہ کیا بلکہ ڈیجیٹل دہشتگردی کی بدترین مثال بھی قائم کی۔ اس رویے کو مزید نہ تو برداشت کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی جنگ زدہ خیبرپختونخوا کی سیکیورٹی صورتحال کو اس صوبائی حکومت کی رحم و کرم پر چھوڑا جاسکتا ہے ۔
لازمی ہے کہ وفاقی حکومت اور عسکری قیادت صوبائی حکومت کے اس رویے کا نوٹس لے لیں اور گورنر کے کردار کو اہم سمجھ کر اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں ان کو مدعو نہ کرنے کا نوٹس لیا جائے۔