یہ بات قابل تشویش ہے کہ ضلع کرم میں بار بار زمینوں کے تنازعات اور حد بندی سے جڑے مسائل نہ صرف سر اٹھاتے ہیں بلکہ ہر بار ہر نیا تنازعہ درجنوں افراد کی جانیں لینے کا سبب بھی بنتا ہے ۔ اب کے بار دو قبائل کے درمیان تنازعہ چل پڑا تو فریقین نے حسب معمول بھاری بھرکم ہتھیار استعمال کئے ۔ مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق جاری کشیدگی کے نتیجے میں اتوار کی شام تک تقریباً 30 افراد جاں بحق ہوئے ۔ یہ بات بہت عجیب ہے کہ اس حساس ضلع میں بعض لوگوں اور گروپوں کے پاس راکٹ لانچرز تک کی لیول کا اسلحہ پایا جاتا ہے مگر متعلقہ حکام اور ادارے ان عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے اور نہ ہی ان کو قابو کرنے کی کوئی عملی کوشش کی گئی ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ کرم میں بار بار اس قسم کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے اور عام لوگوں کو شدید نوعیت کے مسائل اور عدم تحفظ سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ بعض واقعات کو مسلکی اختلاف اور کشیدگی سے نتھی کرنے کی روایت بھی بہت عام ہے ۔ اب کے بار تو بعض حلقوں کی جانب سے یہاں تک کہا گیا کہ طالبان وغیرہ بھی اس معاملے میں ملوث ہوئے ۔ اس سے چند ماہ قبل بھی نہ صرف اس قسم کی صورتحال پیدا ہوئی تھی بلکہ پاکستان اور افغانستان کی بارڈر پر دو تین دن تک جھڑپیں بھی ہوئی تھیں ۔ اس وقت اہم قائدین اور مشران نے ایک جرگے کے ذریعے سیز فائر کرادی مگر تلخیاں کم نہیں ہوئیں ۔
کرم سمیت تمام قبائلی اضلاع میں لینڈ رجسٹریشن اور ریفارمز کا کوئی نظام موجود نہیں ہے ۔ اسی کے نتیجے میں ہر دوسرے تیسرے مہینے کہیں نہ کہیں اس قسم کے افسوسناک واقعات جنم لیتے ہیں اور حکومت درکار اقدامات کی بجائے اس وقت حرکت میں آتی ہے جب بہت نقصان ہوگیا ہوتا ہے ۔ اگر چہ ضلعی حکام اور مشران کے ذریعے ” بعد از خرابی بسیار” ایک مذاکراتی عمل کا آغاز کیا جاچکا ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ لینڈ ریکارڈ اور ریفارمز کا ایک مؤثر نظام لاگو کرتے ہوئے اس قسم کے واقعات کی مستقل بیخ کنی کا راستہ اختیار کیا جائے ۔