GHAG

کرم کے حالات میں ایران کی دلچسپی اور پاکستان کا ردعمل

پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے گزشتہ روز ایک پریس بریفنگ میں خیبرپختونخوا کے ضلع کرم کے حالات سے متعلق حکومت ایران کے ایک بیان پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کا کرم کے بارے میں جاری کردہ بیان غیر ضروری تھا ۔ ایرانی بیان میں پارا چنار اور کرم کی مکمل صورتحال کا احاطہ نہیں کیا گیا تھا ۔

یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب ایران حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے معاملے پر دوسروں کے علاوہ اپنوں کی بھی تنقید کی زد میں ہے تاہم پاکستان کو اس کی وضاحت دینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ایران کی جانب سے کرم کے حالات اور واقعات پر دیا گیا بیان واقعتاً نہ صرف  غیر ضروری تھا بلکہ یکطرفہ بھی تھا ۔ اس بات سے قطع نظر کہ دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم ہیں عالمی سفارتکاری کے مسلمہ اصولوں کے مطابق یہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کی ایک کوشش تھی جس کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے تھے ۔

تلخ حقائق تو یہ ہیں کہ کرم 70 ءکی دھائی کے بعد کسی نہ کسی شکل میں ایران اور سعودی عرب کی باہمی کشمکش کا مرکز بنا رہا ہے اور اس خوبصورت اور نسبتاً ترقی یافتہ قبائلی ضلع میں ماضی کے دوران پاکستان کے یہ دونوں دوست اسلامی ممالک مسلکی معاملات یا اختلافات کا فایدہ اٹھا کر پوائنٹ اسکورنگ کرتے رہے ہیں ۔ اس دو طرفہ رویہ کے سیاسی اور مسلکی اثرات صرف کرم تک محدود نہیں رہے بلکہ متعدد بار کشیدگی کی صورتحال نے پشاور سمیت صوبے کے مختلف دیگر علاقوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ۔

حالیہ کشیدگی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان کو اگر ایران سمیت بعض دیگر مسلکی اختلافات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں تو یہ درست نہیں ہے ۔ معاملات اور اختلافات کا سبب زمینوں اور حد بندی کا ایک تنازعہ تھا جس کو بعد میں حسب سابق مسلکی اختلافات کا رنگ دیا گیا حالانکہ یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ وقتاً فوقتاً تقریباً تمام ضم اضلاع میں اس قسم کے تنازعات سر اٹھاتے رہتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان قبائلی اضلاع میں لینڈ رجسٹریشن ، ڈسٹری بیوشن اور ریفارمز کا کوئی موثر نظام یا ڈھانچہ موجود نہیں ہے ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبائی حکومت اس مستقل مسئلے کے حل کے لیے ہنگامی طور پر اقدامات کرے ۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ متعلقہ اداروں اور سیاسی ، سماجی حلقوں کی کوششوں سے مزید کشیدگی اور خون خرابے کا سلسلہ بند ہوگیا ہے اور  سڑکوں ، املاک کو محفوظ بنانے کے ایک فارمولے پر بھی اتفاق رائے کا راستہ ہموار کیا گیا ہے تاہم آئندہ کے لیے اس قسم کی صورتحال سے بچنے کے لیے لازمی ہے کہ ریاستی رٹ کو فعال اور یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں تاکہ دہشت گردی سے دوچار خیبرپختونخوا کی سیکیورٹی حالات کو کسی نئی کشیدگی کی صورت میں مزید خراب ہونے سے بچایا جاسکے ۔ اس تاثر کا  بھی ازالہ ہونا چاہیے کہ خیبرپختونخوا میں بعض دیگر صوبوں کی طرح سنی اور شیعہ مسالک کے درمیان کوئی نفرت موجود ہے ۔ ایران اور ایسے دیگر ممالک کو بھی اس قسم کے یکطرفہ بیانات دینے یا فریق بننے سے سختی کے ساتھ گریز کرنے کا رویہ اختیار کرنا پڑے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts