GHAG

سماجی بگاڑ میں سوشل میڈیا کا کردار

عرفان خان

پاکستان میں سال2022ء کے دوران طلاق دینے،خلع حاصل کرنے یا فیملی کورٹ کے ذریعے شادی ختم کرنے والی خواتین کی مجموعی تعداداضافہ کے بعد2لاکھ53ہزار374تک پہنچ گئی۔ جبکہ اسی سال کے دوران ملک بھر میں بیواؤں کی مجموعی تعداد21لاکھ41ہزار 971 ریکارڈ کی گئی ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ کے تحت گھر گھر قومی سماجی اقتصادی سروے کا انعقاد2022ء میں مکمل کیا گیا جس کے تحت ملک بھر میں طلاق یافتہ خواتین کی تعداد 2لاکھ 53 ہزار374رپورٹ ہوئی جبکہ بیواؤں کی تعداد21لاکھ 41ہزار971 رپورٹ کی گئی۔ طلاق یافتہ خواتین میں سے58 ہزار 179اور بیواؤں میں سے 5 لاکھ69ہزار889خواتین کو بینظیر کفالت پروگرام، بینظیر تعلیمی وظیفہ اور بینظیر نشونما پروگرام کے تحت مالی امداد فراہم کی جارہی ہے۔

طلاق دینے یا خلع لینے کی وجوہات

معاشی، معاشرتی اور سماجی وجوہات کیساتھ ساتھ طلاق دینے،خلع لینے یا فیملی کورٹ کے ذریعے شادی کو ختم کرنے کی کئی نئی وجوہات سامنے آئی ہیں جس سے ان کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔عورتوں کی حقوق پر کام کرنے والی پشاور ہائیکورٹ کی وکیل مہوش محب کاکا خیل کے مطابق آج کل طلاق اور خلع کے کیسز زیادہ ہوگئے ہیں جن کی مختلف وجوہات ہیں شادی کے بعد کسی کو نوکری نہیں ملتی یا اگر کسی کی نوکری ہے بھی تو کام کرنے والی جگہوں میں مسائل ہوتے ہیں جس سے مرد مایوسی اور دباؤ کا شکار ہوتے ہیں شوہر ذہنی طور پر تناؤ کا شکار ہوتا ہے اور گھریلو و بنیادی ضروریات پوری کرنا ان کے بس سے باہر ہوتی ہیں جس سے بات گھریلو تشدد تک پہنچ جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کے منفی پہلو کی وجہ سے غیر ازدواجی تعلقات استوار ہونا بھی اہم وجہ بن گئی ہے جو بعض خاندان کے زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔معاشی مسائل بہت زیادہ ہیں مرد چاہتے ہیں کہ ایسی لڑکی سے شادی کرے جو ملازمت کر کے اپنی اخراجات پوری کر رہی ہو۔ شادی کے بعد زندگی کا وہ معیار نہیں ہوتا کیونکہ شوہر پھر اپنی بیوی سے نوکری کیساتھ ساتھ گھر کے کام کاج اور بچوں کو سنبھالنے کی توقع بھی رکھتے ہیں جو بعض اوقات لڑکیوں کیلئے مشکل ہوتا ہے نہ گھر میں ملازمہ کو رکھا جاتا ہے اور اکثر بیوی تنگ ہوکر خلع کی طرف عدالت سے رجوع کرتی ہیں۔

مہوش محب کاکاخیل کے مطابق پہلے طلاق یا خلع کی وجہ یہ تھی کہ شوہر بیوی کو اخراجات کیلئے رقم نہیں دیتی یا بچوں کو رقم نہیں دیتی ساس بہو کی لڑائی تھی۔اب طلاق اور خلع کیسز میں اضافہ کی وجہ میں نئے وجوہات سامنے آئے ہیں جن میں سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ رکھنا، غیر ازدواجی تعلقات قائم کرنا، ملازمت کرنے والی بیوی سے گھر کے تمام کام کاج کی توقع رکھنا، اور سب سے اہم وجہ برداشت کا نہ ہونا ہے بہت ساری باتوں پرسمجھوتہ نہیں کیا جاتا جو جدائی کی سبب بنتی ہے۔

بیوی کو جسم فروشی اور بھیک مانگنے پر مجبور کرنے کے واقعات میں اضافہ

مہوش محب کاکا خیل بتاتی ہیں کہ خلع حاصل کرنے یا شادی ختم کرنے کی چونکا دینی والی وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ شادی کے بعد شوہر بیوی کو جسم فروشی پر مجبور کرتی ہیں اور ان کے پاس اس وقت ایسے5مقدمات پشاور فیملی کورٹ میں زیرالتواء ہے ۔بعض مردوں نے کمر عمر یا خوبصورت لڑکیوں کیساتھ شاد ی کی اور پھر اپنی بیوی کو جسم فروشی پر مجبور کرتے رہے۔مختلف نوعیت کےپانچ کیسز ان کے پاس آئی ہیں جہاں مرد اپنی بیوی کو جسم فروشی کے ذریعے پیسہ کمانے کا کہتے ہیں جس پر لڑکیوں نے ان سے خلع لینے کیلئے رجوع کیا۔ پہلے یہ لڑکیاں اپنے والدین کیساتھ یہ باتیں شئیر کرنے میں محتاط تھیں تاہم جب بات زیادہ بگڑ گئی تو انہوں نے عدالت سے رجوع کرلیا۔

سوشل میڈیا نے گھرانے اجاڑ دئیے

سوشل میڈیا نے بیشتر لڑکیوں کی زندگی اجاڑ دی۔ اچھے گھرانوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں بھی دھوکہ کھا جاتی ہیں۔ ایک کیس ایسا بھی تھا جس میں ایک اچھے گھرانے کی لڑکی نے اپنے آپ کو کیپٹن ظاہر کرنے والے لڑکے سے شادی کی،بعد میں معلوم ہوا کہ لڑکا آرمی میں نہیں بلکہ کریم(ٹیکسی) کا کیپٹن ہے۔

 بعض لڑکے فیس بک، ٹک ٹاک، انسٹاگرام، ٹوئٹر یا دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر تصاویر اور ویڈیوز بناکر اپنے آپ کو امیر ظاہر کرتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا اور لڑکیاں دھوکے میں آکر شادی کر لیتی ہیں۔ بعد میں انہیں احساس ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر جس لڑکے کی محبت میں گرفتار ہوئی تھی، وہ صرف دکھاوا تھا۔

اس طرح کا ایک کیس ہے کہ پشاور صدر کے شفیع مارکیٹ میں جرابے بیچنے والے لڑکے نے سوشل میڈیا  پر مہنگی ترین گاڑیوں کیساتھ تصاویر اور ویڈیوز بنوائیں، انہی تصاویر کے ذریعے ایک لڑکی کو اپنی محبت میں گرفتار کرکے شادی کر لی، بعد میں لڑکی کو معلوم ہوتا ہے کہ لڑکا شفیع مارکیٹ میں جرابے بیچتا ہے۔

سوشل میڈیا کے دور میں ہر کسی کو انٹرنیٹ کو سہولت حاصل ہے ان کے پاس ایسے بھی کیس آئے ہیں کہ تعلیم یافتہ اور ڈاکٹر پیشہ سے وابستہ افراد اپنے بیوی سے ایسی فرمائشیں کرتے ہیں جو بیوی کیلئے پوری کرنا مشکل ہوتا ہے ۔اسی طرح کے ایک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے مہوش نے بتایا کہ شوہر اپنی بیوی سے بسنتی بننے کی فرمائش کرتے ہیں یا پھر شوہر اپنی بیوی سے ڈانس کرنے یا ان کی خواہش کے مطابق کسی خاص طریقہ سے بیوی کو شوہر کے سامنے پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

 بیوی کو شادی ختم کرنے کا شرعی اور قانونی حق حاصل ہے

چند ایک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے مہوش محب کاکا خیل نے بتایا کہ ایسا بھی ہو اہے کہ کسی جرم کی پاداش میں مرد جیل چلا جاتا ہے اور کئی عرصہ تک ان کی ضمانت نہیں ہوتی تو اس صورت میں مسلم میرج ایکٹ(Dissolution of Muslim Marriage Act 1939)کے تحت بیوی کو خلع لینے کا حق حاصل ہے کہ عدالت آکر وہ بیان دیں کہ ان کا شوہر کئی سالوں سے جیل میں ہے اور وہ یہ شادی ختم کرنا چاہتی ہیں۔

ایک ڈاکٹر کی پسند کی شادی کا ایسا مقدمہ بھی پشاور فیملی کورٹ میں زیر سماعت ہے جہاں ڈاکٹر نے پسند کی شادی کی ،لڑکی کی رضامندی بھی شامل تھی تاہم لڑکی کو یہ علم نہیں تھا کہ جس ڈاکٹر کو وہ جیون ساتھی بنانے لگی ہیں ان کا نفسیاتی توازن درست نہیں ۔ شادی کے بعد ڈاکٹر اپنی بیوی سے عجیب قسم کی فرمائشیں شروع کی جس میں بسنتی بننے، ڈانس کرنے یا مختلف انداز میں بیوی کو جسم پیش کرنے کی فرمائشیں شامل تھیں ۔بیوی نے تنگ آکر عدالت سے رجوع کیا کہ وہ مزید شوہر کیساتھ نہیں رہ سکتی اور  کورٹ کے ذریعے دونوں کی شادی ختم ہوئی۔

طلاق یا خلع کی ایک وجہ کم عمری کی شادی بھی ہے ۔صرف کم عمری وجہ نہیں بلکہ ڈاکٹرز، پروفیسرز،انجینئرز سمیت تعلیم یافتہ افراد بھی شامل ہیں ۔ان میں  گریڈ22کے افسران بھی ہیں، بڑے بڑے سرمایہ کار بھی اس میں شامل ہیں جو کہتے ہیں کہ برداشت اور سمجھوتہ نہیں ہے یا پھر ان کی شریک حیات کیساتھ مطابقت نہیں ہوتی تو آکر عدالت سے رجوع کرکے خلع لیتے ہیں۔

 ایک وقت ایساتھا جب سول جج کو فیملی جج کے اختیارات دیئے جاتے تھے کہ وہ ان مقدمات کی سماعت کریں۔اس کے بعد ایک فیملی کورٹ بنا اور2023ء میں پشاور میں پانچ فیملی کورٹس ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ طلاق اور خلع کے مقدمات میں کس قدر اضافہ ہوا ہوگا۔

عورت فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر کا مؤقف

عورت فاؤنڈیشن پشاور کی ریزیڈنٹ ڈائریکٹر شبینہ آیاز گزشتہ27 برس سے خواتین کی حقوق پر کام کررہی ہیں ،وہ کہتی ہیں کہ انکے پاس زیادہ تر خلع کے کیسز آتے ہیں ان میں عموما ًعورت گھریلو ناچاقی سے اس قدر تنگ ہوتی ہیں کہ وہ علیحدگی چاہتی ہیں کیونکہ ایک حد کے بعد کوئی بھی برداشت نہیں کر پاتا۔

دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ مرد کو اہم تصور کیا جاتا ہے مگر شادی سے پہلے پتہ نہیں ہوتا، بعد میں سب کچھ معلوم ہوجاتا ہے اسی وجہ سے لڑکی یا عورت طلاق یا خلع لینے کی کوشش کرتی ہیں جہاں وہ سب کچھ چھوڑنے کو تیار ہوتی ہیں۔

تیسری وجہ گھر کے مالی حالات بھی ہیں کہ وہ ان اور بچوں کا خرچہ اٹھائے اور انہیں ہراساں بھی کیا جائے ۔یہ بھی ایک وجہ ہے جس میں لڑکیاں یا عورت چاہتی ہیں کہ ان کا خلع ہو جائے۔ عورت میں یہ شعور اور آگاہی آرہی ہے ،اس طرح کے کیسز میں طوالت ٹھیک نہیں رہتی اس لئے عدالتوں کو بھی ان کیسز کا فیصلہ کرنے کیلئے6ماہ کی مہلت دی گئی ہےاور خود لڑکیاں بھی یہ نہیں چاہتیں ۔انکے مطابق سوشل میڈیا یا کوئی بھی میڈیا بہت اہم کردار نبھا سکتا ہے لیکن بنیادی وجہ گھر کے حالات ہو سکتے ہیں کہ جہاں پر لڑکیاں ہراساں کرنے کے ماحول میں نہیں رہنا چاہتیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts