GHAG

بے لگام سوشل میڈیا

ہدایت اللہ گل

پاکستان میں سوشل میڈیا کی تباہ کاریوں کے بعد جمہوریت میں دنیا کو لیڈ کرنے والا ملک برطانیہ بھی آزادی رائے کے اس عفریت سے بچ نہیں سکا۔ غلط بیانی، بے بنیاد معلومات اور غیر ذمہ دارانہ روش نے برطانوی سوشل میڈیا نے پورے ملک میں آگ لگا دی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر معاشروں میں فرقہواریت کو بڑی آسانی سے ہوا دیا جا سکتا ہے، جیسے حال ہی میں ایر ان نے کرم، پاڑہ چنار میں ایسا کرنے کی بے سود کوشش کی۔ لیکن برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک جہاں تعلیم کی شرح تقریبا سو فیصد، جمہوریت نہایت مضبوط، آزای رائے کی مکمل آزاد ی ہے، وہاں پر بھی اقلیتوں کیساتھ ناروا سلوک کی داستانیں زبان زد عام ہیں۔ تازہ ترین سروے کیمطابق برطانیہ میں 75 فیصد مسلمانوں نے کہا ہے کہ وہ حالیہ نسلی فسادات کے بعد سے خوف زدہ ہیں اور خود کو یہاں غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق مسلم خواتین کے نیٹ ورک کے سروے میں ملک بھر میں انتہائی دائیں بازو کے فسادات کے بعد برطانیہ میں 3 چوتھائی مسلمانوں نے اپنی حفاظت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سروے میں 16 فیصد مسلمانوں نے کہا کہ وہ حالیہ تشدد کی پھوٹنے  سے پہلے سے بھی خود کو یہاں ایسا ہی محسوس کرتے تھے۔20 فیصد کی مطابق انہیں 30 جولائی کو ساؤتھ پورٹ سے شروع ہونے والے ہنگاموں سے بھی پہلے پُرتشدد صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سروے میں حصہ لینے والے 75 فیصد مسلمانوں کا موقف ہے کہ حالیہ فسادات کے بعد وہ برطانیہ میں خود کو اور اپنے اہل خانہ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں اور اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے تشویش میں مبتلا ہیں،یا د رہے کہ لندن کے مسلم میئر پاکستانی نژاد صادق خان بھی کہہ چکے ہیں کہ میئر ہونے کے باوجود وہ اپنی اور اپنی بیٹیوں کی حفاظت کے لیے فکر مند ہیں۔ انھوں نے برطانیہ میں بڑھتے ہوئے نسلی فسادات اور نفرت انگیزی پر تشویش کا اظہار بھی کیا تھا۔ برطانیہ میں حالیہ نسلی فسادات ایک نائٹ کلب میں ہونے والے چاقو حملے کے بعد شروع ہوا تھا جس میں 3 نوجوان لڑکیاں ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئی تھیں۔ سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی غلط معلومات نے اس حملے کو مسلم پناہ گزین سے جوڑا تھا جس کے بعد متعدد مقامات پر مساجد کو نشانہ بنایا گیا تھا اور مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے واقعات تاحال جاری ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts