پاکستان کے اندر سال 2002 سے خودکش حملوں کا آغاز کیا گیا تھا جسے طالبان فدائی حملوں کا نام دیتے رہے اور اس پریکٹس کو مذکورہ مزاحمت اور جنگ میں ایک ایسے ہتھیار کی حیثیت دی گئی جس کا توڑ نہ تو پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے پاس موجود تھا اور نہ ہی افغانستان میں اس جنگی لائحہ عمل کا نیٹو وغیرہ نے کوئی مثبت مؤثر طریقہ نکالا ۔ امریکی اور نیٹو کی ٹیکنالوجی چونکہ پاکستان کے مقابلے میں بہت ماڈرن تھی اس لیے وہاں خودکش یا فدائی حملوں کی شرح کم رہی مگر پاکستان میں اس پر وسائل کے فقدان کے باعث قابو نہیں پایا جا سکا ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان فورسز اور سیاسی ، عوامی حلقوں پر ہونے والے حملوں میں سب سے زیادہ نقصان ان حملوں کے باعث اٹھانا پڑا اور یہ سلسلہ 2023ء کے دوران پھر سے تیز ہوتا گیا ۔ 2023 ءمیں خیبرپختونخوا میں تقریباً 23 ، بلوچستان میں 11 ،اسلام آباد میں 2 خودکش کارروائیاں کی گئیں جبکہ 2024 کے ابتدائی 3 مہینوں میں یہ تعداد 15 سے زائد رہی جس کا مطلب یہ لیا گیا کہ اس کی تعداد بڑھتی گئی ۔ ان میں سے مارچ 2024 کے دوران میر علی شمالی وزیرستان میں فورسز پر ہونے والا وہ حملہ سب سے خطرناک ثابت ہوا جس میں 7 سیکورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا اور جس کے جواب میں پاکستان کو پہلی بار رسمی طور پر افغانستان کے دو صوبوں خوست اور پکتیکا میں فضائی کارروائی کرنی پڑی ۔ اسی مہینے بشام میں چینیوں کے ایک کانوائے پر خودکش حملہ کرایا گیا جس کے نتیجے میں 6 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور پاکستان کو شدید دباؤ سے دوچار ہونا پڑا کیونکہ اس حملے نے ہی پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک سمیت متعدد دیگر پراجیکٹس کے مستقبل کو مشکلات سے دوچار کیا اور ریاستی سطح پر اس حملے کا اتنا سخت نوٹس لیا گیا کہ اس حملے کے اگلے روز وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں تمام اہم انٹلیجنس ایجنسیوں کے سربراہان کے علاوہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی شرکت کی اور چینی اہلکاروں اور باشندوں کے تحفظ کے لئے مختلف امکانات کا جائزہ لیا گیا۔
سال 2003 ۔ 04 کے دوران پاکستان کے اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف پر راولپنڈی اسلام آباد میں تین بار خودکش حملے کیے گئے مگر فل پروف انتظامات کے باعث وہ بچ گئے تاہم ایک حملہ اتنا شدید تھا کہ وہ اس میں زخمی ہوگئے اور انہوں نے ایک ہفتے تک کسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیا ۔ ان موضوعات پر کام کرنے والے نامور صحافی مرحوم رحیم اللہ یوسفزئی کو ایک بار تحریک طالبان پاکستان کے خودکش سکواڈ کے سربراہ قاری حسین نے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ کم از کم 500 خودکش اہلکار موجود ہیں ۔ اگر چہ جنوبی ایشیاء میں خودکش حملوں کی تاریخ پاکستان اور افغانستان تک محدود نہیں ہے اور اس ضمن میں بھارت اور سری لنکا بھی شامل ہیں تاہم سب سے زیادہ خودکش کارروائیاں پاکستان میں کی گئی جبکہ تعداد کے لحاظ سے افغانستان دوسرے نمبر پر رہا۔
بھارت میں اس ہتھیار کو نہ صرف کشمیری جہادی گروپوں نے مقبوضہ وادی میں تواتر کے ساتھ انڈین فورسز کے خلاف استعمال کیا بلکہ اس سے قبل کانگریس پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کو بھی ایک سری لنکن گروپ نے سال 1991 کو ایک تباہ کن خودکش حملے کے دوران ایک انتخابی جلسے کے دوران درجنوں دیگر کے ہمراہ ہلاک کردیا ۔اس قسم کے حملے سری لنکا میں بھی کیے گئے ۔ پاکستان میں سال 2005-06 کے دوران خودکش کارروائیاں تیز کردی گئیں ۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا حملہ خیبرپختونخوا کے علاقے درگئی میں فورسز کے ایک قلعہ کے باہر پریکٹس کرنے والے اہلکاروں پر کرایا گیا جس کے نتیجے میں درجنوں اہلکار جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوگئے اس کے بعد سال 2007 کے بعد جب سوات میں حالات خراب ہوگئے تو درجنوں خودکش کارروائیاں کی گئیں ایسی ہی ایک کارروائی کے دوران عید کے موقع پر اے این پی کے ایک ممبر صوبائی اسمبلی ڈاکٹر شمشیر علی خان کو ساتھیوں سمیت نشانہ بنایا گیا جبکہ بعد میں پشاور میں ہونے والے خودکش حملوں میں لاتعداد افراد کو شہید کیا گیا جن میں سینئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور ، کمانڈنٹ فرنٹیئر کانسٹیبلری صفوت غیور اور متعدد دیگر شخصیات شامل رہیں۔
اس خطرناک ہتھیار کا استعمال صرف خیبرپختونخوا تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کے ذریعے کراچی ، راولپنڈی اسلام آباد ، لاہور ، کویٹہ اور متعدد دیگر شہروں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
ایسی ہی ایک کارروائی کے دوران 2007 کے الیکشن مہم کے دوران سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کو راولپنڈی میں نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں ان سمیت درجنوں دیگر کو جانیں دینی پڑیں ۔ بے نظیر بھٹو کو اسی مہم کے دوران پشاور کے دورے کے دوران نشانہ بنانے کی پلاننگ کی گئی تھی مگر اسے بعد میں منسوخ کردیا گیا اور انہیں راولپنڈی میں نشانہ بنایا گیا۔
یہ بھی بہت عجیب بات ہے کہ جس روز بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی میں نشانہ بنایا گیا اس دن افغانستان کے صدر حامد کرزئی اسلام آباد کے دورے پر تھے اور بے نظیر بھٹو نے شہادت سے قبل آخری رسمی ملاقات کرزئی ہی سے کی تھی ۔ بعض رپورٹس کے مطابق افغان صدر نے اس ملاقات میں نہ صرف یہ کہ اپنی انٹلیجنس رپورٹس کی بنیاد پر ان کو احتیاط برتتے کا مشورہ دیا تھا بلکہ ان کے ساتھ انسدادِ دہشت گردی کے متوقع امکانات اور روڈ میپ پر تبادلہ خیال بھی کیا تھا کیونکہ الیکشن میں بے نظیر بھٹو کی کامیابی یقینی تھی تاہم ان کو زندگی ہی سے محروم کیا گیا ۔ اس حملے کے بارے میں حسب معمول سازشی نظریات پھیلانے کی کوشش کی گئی مگر یہ حملہ بلاشک و شبہ ٹی ٹی پی ہی نے کرایا تھا اور مفتی نور ولی محسود نے اپنی کتاب انقلاب محسود میں اس کی پوری تفصیلات لکھی ہیں ۔ بعد میں جن افراد کو گرفتار کیا گیا انہوں نے بھی پوری پلاننگ کی اطلاعات فراہم کیں۔
اس پس منظر میں کہا جاسکتا ہے کہ دو ڈھائی دہائیوں کے دوران پاکستان اور بھارت کے جو دو اہم لیڈرز اور سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور راجیو گاندھی قتل کیے گئے ان دونوں واقعات میں خودکش بمبار استعمال کئے گئے ۔ اگرچہ بے نظیر بھٹو کی موت گولی لگنے سے واقع ہوئی تھی تاہم اصل کریڈٹ خودکش سکواڈ اور تکنیک ہی کو ملا۔
پاکستان کے اندر ایک محتاط اندازے کے مطابق نائن الیون کے بعد تقریباً 200 خودکش کارروائیاں کی گئیں جن میں 67 فی صد حملے صوبہ خیبر پختونخوا میں کرائے گئے۔
اس تمام لہر نے جہاں پاکستان کی سیکورٹی فورسز کو شدید نوعیت کے چیلنجز سے دوچار کیا اور لاتعداد حملوں کے دوران فورسز کو بھی نشانہ بنایا گیا وہاں پاکستان کے مذہبی حلقوں خصوصاً علماء میں یہ بحث چل نکلی کہ اسلام کے نظریہ جہاد اور قتال کے مطابق خودکش حملوں کی شرعی حیثیت کیا ہے اور ساتھ میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ کیا ایک اسلامی ملک میں مسلمانوں پر اس طرح کے حملے اسلامی نقطہ نظر سے درست ہیں یا نہیں ؟ اس ضمن میں مختلف آراء سامنے آئیں تاہم طالبان اپنے دلائل کے ذریعے اس تمام عمل کو جائز قرار دیتے رہے ۔ خودکش حملوں سمیت بعض دیگر متعلقہ موضوعات پر طالبان کے موقف کےخلاف بعض دیگر کے علاوہ ممتاز سکالر جاوید احمد غامدی اور ان کے ساتھیوں نے سخت لہجہ استعمال کرنا شروع کردیا تو بعض دیگر علماء بھی میدان میں نکل آئے جن میں خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے سابق ایم این اے اور ممتاز عالم دین مولانا حسن جان اور نامور مذہبی رہنما محمد خان قابل ذکر ہیں ۔ ان سب نے خودکش حملوں کو خلاف اسلام قرار دیا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مولانا حسن جان کو بے دردی سے شہید کیا گیا ۔ مولانا شیرانی پر متعدد حملے کئے گئے اور علامہ غامدی کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔
سال 2015 کے دوران پاکستان کے درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں علماء نے نہ صرف مختلف فتوؤں کے ذریعے خودکش حملوں کو خلاف اسلام قرار دیا بلکہ تقریباً 1800 قابل ذکر علماء نے پاکستان کو ایک اسلامی ریاست قرار دیتے ہوئے یہاں پر ہونے والی تحریک طالبان پاکستان اور دیگر کی کارروائیوں کو بھی خلاف شریعت قرار دیتے ہوئے اس طرزِ عمل کی مخالفت کی تاہم دوسری جانب سے ان علماء کے فتووں اور دلائل کو رد کرتے ہوئے نہ صرف اپنی کارروائیوں کو جاری رکھا گیا بلکہ جن علماء نے اس نوعیت کے طالبان مخالف فتوے اور بیانات دیئے تھے ان کو ریاستی اداروں کے ایجنٹ قرار دیتے ہوئے سخت دباؤ سے دوچار کیا گیا ۔ اور متعدد پر حملے بھی کرایے گئے ۔ اس تمام تناظر میں جہاد سے متعلق فکری اور مسلکی اختلافات اور تضادات اپنی جگہ مگر سیکورٹی پوائنٹ آف ویو سے اس میں دو آراء ہیں ہی نہیں کہ خودکش حملے تمام ممالک کی فورسز کے لیے ڈراؤنے خواب سے کم نہیں رہے اور تمام تر کوششوں کے باوجود اس ہتھیار کا توڑ نہیں نکالا جاسکا۔