یہ بات ناقابل سمجھ بلکہ ناقابل برداشت ہے کہ لکی مروت اور بعض دیگر علاقوں میں پولیس فورس نہ صرف بغاوت پر اتر آئی ہے بلکہ رولز آف بزنس کی کھلم کھلا خلاف ورزی سے بھی گریز نہیں کررہی اور اپنی من پسند شرائط پر سیکیورٹی سے متعلق بعض حساس ایشوز پر سیاست بھی کرنے لگی ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق سسٹم میں موجود بعض طاقتور عناصر لکی مروت پولیس کی حالیہ ہڑتال بلکہ بغاوت کے پیچھے کھڑے ہیں تاہم اس سے بھی زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ صوبائی حکومت اس تمام معاملے سے اس کے باوجود لاتعلق ہے کہ لکی مروت کے بعد ایک حساس ضلع باجوڑ اور بعض دیگر علاقوں میں بھی پولیس کی بغاوت کے باقاعدہ اعلانات کیے گئے ہیں مگر حکمران ٹس سے مس نہیں ہورہے۔
صوبے کو بدترین نوعیت کی بیڈ گورننس کا سامنا ہے اور صوبائی حکومت جان بوجھ کر معاملات کو مزید خراب کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ صوبائی حکومت کیا کچھ کرتی رہی ہے اس کا اندازہ سابق صوبائی وزیر شکیل خان کی گزشتہ روز خیبرپختونخوا اسمبلی میں ہونے والی تقریر سے لگایا جاسکتا ہے۔
حکمران پارٹی نے صوبے کو اپنے سیاسی مفروروں کے “علاقہ غیر” میں تبدیل کردیا ہے اور پولیس ان مفروروں کے پروٹوکول اور پروٹیکشن کی ذمہ داریوں پر مامور ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لکی مروت کی ہڑتال نما بغاوت کا گھنٹوں کے اندر سخت نوٹس لیکر ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کو گھر بھیج دیا جاتا کیونکہ رولز آف بزنس میں اس قسم کی بغاوت یا شرائط کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے مگر ان ہڑتالی عناصر کو اتنی سرپرستی حاصل رہی کہ اب یہ مزاحمت اور بغاوت صرف لکی مروت تک محدود نہیں رہی۔
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا کے مصداق یہ اتنا سادہ کھیل نظر نہیں آتا جتنا سمجھا جاتا ہے ۔ ایک ایسے وقت میں جب جنوبی اور قبائلی اضلاع کو بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے پولیس فورس کو اس نوعیت کی چھوٹ دینے سے بہت سے سوالات نے جنم دے دیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے علاوہ صوبے کی حکمران جماعت کے بیرون ملک مقیم میڈیا ترجمان کئی دنوں سے یہ پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ صوبائی حکومت اور اس کی پولیس نے فوج یا ریاست سے بغاوت کردی ہے مگر اس تمام پروپیگنڈے اور صورت حال کا پشاور کے حکمرانوں اور اعلٰی بیوروکریسی کو کوئی ادراک یا پرواہ نہیں ہے۔
اگر معاملات اس طرح جاری رہے تو جنگ زدہ صوبہ انتظامی طور پر توڑ پھوڑ سے دوچار ہوجائے گا اور اس کے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوں گے اس لیے لازمی ہے کہ ریاستی رٹ کے ذمہ دار دیگر ادارے اس صورتحال کا نوٹس لے کر درکار اقدامات کو یقینی بنائیں اور اگر صوبائی حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہی تو گورنر راج سمیت تمام آپشنز کو زیر استعمال لاکر معاملات کو مزید خراب ہونے سے روکا جائے۔