GHAG

طالبان کے ساتھ مذاکرات ہوئے تھے، کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا، بیرسٹر محمد علی سیف

دوران مذاکرات حملے ان گروپوں نے کیے جو مذاکرات کے مخالف تھے، مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا حکومت

پاکستان نے مذاکرات افغان حکومت کی خواہش پر شروع کیے تھے، صوبائی حکومت دہشت گردی کے خاتمے میں سنجیدہ ہے، خصوصی انٹرویو

 پشاور (غگ رپورٹ) خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان، مشیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ دہشت گردی کو تمام تر رکاوٹوں اور مسائل کے باوجود شکست دیکر رہیں گے اور حکومت عوام کے تحفظ کے لیے نہ صرف سنجیدہ ہے بلکہ جنوبی اور قبائلی اضلاع کی پولیس کے لیے اربوں روپے کی سہولیات فراہم کررہی ہے یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ سابق حکومت نے طالبان کے ساتھ کوئی معاہدہ کیا تھا یا افغانستان سے ان کی منتقلی کا کوئی اقدام اٹھایا تھا۔

سینئر صحافی فاروق فراق کو ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے کہ سابق حکومت نے دوحا پیس پراسیس کے تناظر میں افغان طالبان اور بعض دوست ممالک کی خواہش اور رابطہ کاری کے نتیجے میں کابل میں نورولی محسود کی زیر قیادت ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی دو تین نشستیں کیں تاہم یہ سلسلہ اس وقت کسی مزید پیشرفت کے بغیر اختتام پذیر ہوا۔ جب پاکستانی وفد کی کابل میں موجودگی کے دوران القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کو نشانہ بنایا گیا تو بعض فریقین میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نہ تو اس مذاکراتی عمل کے نتیجے میں فریقین کسی معاہدے پر پہنچے تھے اور نا ہی حکومت نے افغانستان میں موجود طالبان کی واپسی کو کوئی عملی جامہ پہنایا تھا۔ اگر کوئی یہ ثابت کریں کہ فلاں شخص کو ہم افغانستان سے واپس لائے تھے تو پھر دیکھا جائے گا۔

ان کے بقول مذاکراتی عمل کے دوران بنیادی شرائط پر بات چیت جاری تھی کہ بعض مذاکرات مخالف گروپوں نے اس کو ناکام بنانے کیلئے حملے تیز کیے اور پاکستانی فورسز نے بھی سخت ردعمل دیا تاہم یہ سلسلہ بوجوہ کامیاب نہ ہوسکا اور مخالفین نے حقائق جانے بغیر اس قسم کا تاثر پیدا کیا کہ ہم ایک پالیسی کے تحت طالبان کو کوئی رعایت دے رہے ہیں یا یہ کہ ان کو شرائط منوائے بغیر واپس لارہے ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ طالبان نے واقعی ایک شرط یہ بھی رکھی تھی کہ قبائلی اضلاع کے فاٹا والی سٹیٹس کو ختم کیا جائے تاہم اس شرط کو کھلی طور پر مسترد کردیا گیا تھا اور ان کے سامنے یہ شرط رکھی گئی تھی کہ وہ ٹی ٹی پی کا نام اور تنظیمی ڈھانچہ ختم کرکے واپس پاکستان آئیں گے مگر یہ تمام پراسیس بوجوہ آگے نہیں بڑھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور افغانستان کی بارڈر اتنی طویل اور پیچیدہ ہے کہ اس پر کی جانے والی آمدورفت کو مانیٹر کرنا سرے سے ممکن ہی نہیں ہے اس لیے دہشت گرد موقع پاکر حملے کرتے ہیں تاہم پولیس سمیت تمام سیکورٹی ادارے نہ صرف مسلسل کارروائیوں میں مصروف عمل ہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر قربانیاں بھی دے رہے ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے حالیہ بجٹ میں خیبرپختونخوا پولیس کی استعداد کار بڑھانے اور سہولیات کی فراہمی کے لیے ساڑھے سات ارب روپے کا بجٹ مختص کیا ہے جس کے نتیجے میں جنوبی اور قبائلی اضلاع میں پولیس سمیت بعض دیگر اداروں کی فعالیت میں مزید اضافے کا راستہ ہموار ہوسکے گا اور یہ کہ حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے معاملے پر نہ صرف یہ کہ بہت سنجیدہ ہے بلکہ درکار اقدامات بھی اٹھا رہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts