GHAG

آئینی ترامیم پر ڈیڈ لاک اور ادارہ جاتی کشیدگی

یہ بات قابل تشویش ہے کہ مختلف ریاستی ادارے پاکستان کو درپیش چیلنجز اور مشکلات کا ادراک کیے بغیر ذاتی، گروہی اور ادارہ جاتی مفادات کے لیے نہ صرف ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہوگئے ہیں بلکہ بعض “شخصیات” رولز آف بزنس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ذاتیات پر اتر آئی ہیں۔ نام آئین کا استعمال ہورہا ہے مگر ” کام” اپنا نکلوایا جارہا ہے۔ کوئی بھی اس بات کا احساس نہیں کررہا کہ حالات اور واقعات کے تناظر میں بعض ناپسندیدہ اور غیر مروجہ فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔

تلخ حقیقت تو یہ ہے سیاسی قائدین اور پارٹیوں نے جس انداز میں بعض مجوزہ آئینی ترامیم کے معاملے کو ڈیل کیا اور جس طریقے سے پولیٹیکل بارگیننگ کی گئی وہ سب کے سامنے ہیں تاہم اس تمام گیم میں سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کی ساکھ جس نہج پر متاثر ہوئی اس کا شاید ملک کی پارلیمانی قوتوں کو ابھی کوئی احساس نہیں ہورہا۔

سنجیدگی کے ساتھ مجوزہ ترامیم کو سمجھنے یا سمجھانے کی بجائے ٹیلی ویژن سکرینز پر ایک تھیٹر کے انداز میں ڈسپلے کرنے کا جو ٹرینڈ اپنایا گیا اس کے نتیجے میں تمام معاملے کو متنازعہ بنانے کا راستہ ہموار کیا گیا اور غیرضروری بیان بازی نے اس سنجیدہ ایونٹ کو مذاق بناکر رکھ دیا۔

رہی سہی کسر مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کے “کی بورڈ واریئرز” نے پوری کردی جنہوں نے اس تمام معاملے کو مزید “ڈرامیٹک” بناکر مزید پیچیدہ بنادیا۔ نام و نہاد ماہرین نے مجوزہ ترامیم کو روٹین کا مٹیریل سمجھ کر اس میں سے ہر نوعیت کی سازشی تھیوریاں نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مزید تلخیاں پیدا ہوگئیں اور مختلف ریاستی اداروں کے درمیان موجود فاصلے مزید بڑھ گئے۔ پرویز مشرف کی لیگل فریم ورک ( ایل ایف او) پر لبیک کہنے والے مولانا فضل الرحمان نے ” 197 کے آئین کے تناظر ” میں اصول پرستی کے شوق میں خود کو کنگ میکر ثابت کرنے کی مہم جوئی میں اپنی رہائش گاہ کو “سیاسی تھیٹ” میں تبدیل کرتے ہوئے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی پالیسی اختیار کی حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ روایتی طور پر مولانا کتنے اصول پسند لیڈر رہے ہیں۔

اس تمام صورتحال میں اعلیٰ عدلیہ کے صحافتی ترجمانوں نے بھی آئین ، انسانی حقوق اور عدلیہ کی آزادی کا چھورن بیچنے میں اپنی تمام “صلاحیتیں” بروئے کار لاتے ہوئے وہ والی بات ایک بار پھر ثابت کردی کہ “ہم بھی کسی سے کم نہیں” اور تمام کھلاڑیوں کی کارکردگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاملہ نہ صرف کھٹائی میں پڑ گیا بلکہ اداروں کی سنجیدگی اور ساکھ پر بھی مزید سوالات کھڑے ہوگئے ۔

تلخ حقائق تو یہ ہیں کہ پاکستان کے اندر اعلیٰ عدلیہ کے سیاسی فیصلوں نے پورے سسٹم اور سوسائٹی کو مفلوج اور مشکوک بناکر رکھ دیا ہے اور اظہار رائے کے ایشو نے بھی کئی بنیادی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ ایسے میں بعض آئینی ترامیم اور ایگزیکٹیو ، پارلیمنٹ کے اختیارات پر نظر ثانی کی اہمیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا۔

پاکستان میں شنگھائی تعاون کانفرنس کے انعقاد سمیت بعض درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے غیر معمولی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ دہشت گردی کی جاری لہر، پاک افغان تعلقات، چین اور امریکہ کے ساتھ روابط اور متعدد دیگر ایشوز پر انتہائی ذمہ داری کے ساتھ تمام اسٹیک ہولڈرز کو سوچنا چاہیے کیونکہ ہمارے اندرونی مسایل مزید مشکلات پیدا کرنے کا راستہ ہموار کررہے ہیں اور خطے میں رونما ہونے والی متوقع تبدیلیوں سے ریاست کی درکار توجہ ہٹانے کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts