GHAG

ٹی ٹی پی میں اختلافات کی اطلاعات

احسان اللہ احسان نے کن کے لیے غدار کا لفظ استعمال کیا ؟ موجودہ قیادت مفادات، مفاہمت کی راہ پر گامزن،ایکس پر پوسٹ

پشاور (غگ رپورٹ) کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے ایکس پر ایک پوسٹ شیئر کی ہے جس میں انہوں نے ٹی ٹی پی کی موجودہ قیادت کو بین السطور میں نہ صرف تنقید کا نشانہ بنایا ہے بلکہ ان کے لیے “غدار” کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ غالباً اس پوسٹ یا تحریر میں انہوں نے ٹی ٹی پی کے موجودہ امیر مفتی نور ولی محسود کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے اور موجودہ قیادت کو اس مسافر سے تشبیہ دی ہے جس کو اپنی منزل کا پتہ نہیں ہوتا۔

ان کے محتاط انداز تخاطب سے یہ نتیجہ اخذ کیا جارہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے اندر ایک بار پھر تنظیمی اور نظریاتی اختلافات نے سر اٹھایا ہے اور بعض اہم گروپ یا کمانڈرز موجودہ اعلیٰ قیادت کی پالیسیوں سے خوش نہیں ہیں۔

اس سے قبل بھی احسان اللہ احسان اور بعض دیگر نے سوشل میڈیا پر نور ولی محسود کے اس بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس میں انہوں نے پاکستانی ریاست کو مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔

کچھ عرصہ قبل اس قسم کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں کہ بعض ایشوز پر نہ صرف ٹی ٹی پی کے اندر اختلافات بڑھ گئے ہیں بلکہ افغان حکومت اور ٹی ٹی پی بھی بعض اہم معاملات پر ایک دوسرے کی مخالفت پر اتر آئی ہیں۔

یاد رہے کہ احسان اللہ احسان اور بعض دیگر کمانڈرز نے سال 2013 کے آخر میں نواز شریف حکومت کے قیام کے بعد ایک مذاکراتی عمل کی مخالفت میں عمر خالد خراسانی کی قیادت میں “حزب الاحرار” کے نام سے ایک الگ گروپ قائم کیا تھا جس نے دوران مذاکرات متعدد خطرناک قسم کے حملے کیے جن میں پشاور کی کوہاٹی چرچ پر ہونے والا خوفناک حملہ بھی شامل تھا۔

بعض سیکورٹی ذرائع کے مطابق گزشتہ چند مہینوں سے خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں خصوصاً ضلع خیبر،مہمند اور باجوڑ میں ” الاحرار گروپ” پھر سے فعال ہوگیا ہے جبکہ خیبر میں لشکر اسلام کی فعالیت کی خبریں بھی زیر گردش ہیں۔ غالباً اسی کا نتیجہ ہے کہ فورسز نے 20 اگست کے بعد ضلع خیبر کی وادی تیراہ اور بعض دیگر علاقوں میں متعدد فوجی کارروائیاں کیں۔

پاکستان اور افغانستان دو پڑوسی اور برادرانہ ممالک ہیں لیکن افغان عبوری حکومت کے گذشتہ تین سال میں سرحدپار سے جتنے حملے پاکستان پر ہوئے، وہ ریکارڈ پر ہیں۔ پاکستان بارہا نہ صرف اس پر احتجاج کرچکا ہے بلکہ ایک بار سرحد کے اس پار کارروائی بھی کرچکا ہے۔

بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس بھی ریکارڈ پر موجود ہیں کہ افغانستان اس وقت دہشت گرد تنظیموں کیلئے ‘محفوظ مقام’ بن چکا ہے جہاں کالعدم ٹی ٹی پی، القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں موجود ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts