GHAG

ایمل ولی خان کا پی ٹی آئی کو ٹی ٹی پی کا سیاسی ونگ قرار دینے کا بیانیہ

اے این پی کے مرکزی صدر سینیٹر ایمل ولی خان نے پاکستان تحریک انصاف کو کالعدم ٹی ٹی پی کا سیاسی ونگ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی نظریاتی قوتیں ہیں اور یہ ایک دوسرے کو ہر سطح پر سہولتیں اور معاونت فراہم کرتی آرہی ہیں۔بدقسمتی سے خیبرپختونخوا گزشتہ کئی سالوں سے ان دونوں کی دہشت گردی،انتشار پسندی اور جنونیت کی رحم و کرم پر ہے ایسے میں یہ توقع ہی عبث ہے کہ صوبے میں امن قائم ہوگا یا کوئی معاشی اور سماجی ترقی ممکن ہوسکے گی۔

چارسدہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ صوبہ میں بدامنی کے متعدد اسباب ہیں تاہم اس بات کا سب کو ادراک ہونا چاہیے کہ ٹی ٹی پی اور پی ٹی آئی ایک پیج پر ہیں اور صوبائی حکومت کے وسائل اور سہولیات کو ان دونوں کے مفاد اور سرپرستی کے لیے سال 2013 کے بعد مسلسل استعمال کیا جارہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ایمل ولی خان نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار دیکھنے کو مل رہا ہے کہ دفاعی ادارہ عدلیہ کی “بدمعاشی” کے خلاف پارلیمنٹ کی حمایت میں اس کی پشت پر کھڑا ہے اور ہمارا نظریہ ہے کہ پارلیمنٹ کو ہر صورت میں سپریم اور بااختیار ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق افتخار محمد چوہدری اور ثاقب نثار کے ادوار میں جو رویے اختیار کیے گئے اس کے نتائج سب ابھی تک بھگت رہے ہیں اور وہ پالیسیاں مزید نہیں چلیں گی۔

ایمل ولی خان کے مطابق خیبر پختونخوا سال 2013 کے دوران محض 80 ارب روپے کا مقروض تھا تحریک انصاف کے کرپشن اور صوبے کے وسائل کو اس پارٹی کے بانی اور ان کی سیاست کے لیے استعمال کرنے کے باعث اس وقت صوبہ 1500 ارب روپے کا مقروض ہے اور اس وقت بھی صوبے کے وسائل عمران خان اور اس کی سیاست،رہائی کے لیے بے دردی کے ساتھ استعمال ہورہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صرف بی  آر ٹی پراجیکٹ میں 32 ارب کا کرپشن کیا گیا۔ یہ اربوں روپے نہ صرف بنی گالا وغیرہ کے خرچے بلکہ اگلے الیکشن کے لیے استعمال کیے گئے اور موجودہ صوبائی حکومت بھی اسی پالیسی پر گامزن ہے۔

ان کے بقول “امریکہ ہر مہینے جہازوں میں کروڑوں ڈالرز بھر کر افغانستان بھیج رہا ہے جس سے بہت سی باتیں اور چیزیں واضح ہورہی ہیں”۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایمل ولی خان کے طرزِ تخاطب اور بعض سیاسی ترجیحات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے تاہم ٹی ٹی پی،پی ٹی آئی اور پراکسیز پر ان کے موقف کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے جو نکات اٹھائے ہیں ایسی ہی باتیں اسی روز پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی ڈان نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کی ہیں اس لیے ضروت اس بات کی ہے کہ ان دو اہم پارٹیوں کے خدشات،شکایات اور تجاویز کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیا جائے اور بعض اہم مزاحمتی قوتوں کا راستہ روکنے کی ضرورت کو یقینی بنایا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts