23 ستمبر کو پاکستان سمیت مختلف ممالک میں رہائش پذیر پشتون عوام اور سیاسی، ادبی و ثقافتی حلقے “پشتون کلچر ڈے” کے طور پر مناتے ہیں۔اس روز کی مناسبت سے سیمینارز، کانفرنسوں اور میوزک تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اپنی مٹی، زبان اور ثقافت کے ساتھ محبت اور تجدید وفا کا اظہار کیا جاتا ہے۔
اس برس بھی پاکستان کے مختلف علاقوں اور شہروں میں تقریبات اور ایونٹس کا انعقاد کیا گیا۔ سب سے بڑی تقریب کراچی میں منعقد ہوئی جس کا اہتمام اے این پی سندھ نے کیا تھا۔ پارٹی کے مرکزی صدر سینیٹر ایمل ولی خان نے اس تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرتے ہوئے کہا کہ پشتونوں کے امیج کو جان بوجھ کر خراب کرنے کی کوشش کی گئی اور عالمی سطح پر اس امن پسند قوم کو انتہا پسند قرار دینے کا بیانیہ تشکیل دیا گیا جو بالکل غلط اور یکطرفہ ہے۔ انہوں نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں تشدد کی جاری لہر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو اس صورتحال نے سیاسی، نفسیاتی اور معاشی طور پر بہت پریشان کردیا ہے اور سب کو بدامنی کے خاتمے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔
بعض دیگر رہنماؤں کے علاوہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی ایک رسمی بیان میں تمام پشتونوں کو اس دن کی مناسبت سے مبارکباد پیش کی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور افغانستان کی ایک بڑی آبادی پشتونوں پر مشتمل ہے اور کراچی، اسلام آباد سمیت پاکستان کے مختلف شہروں اور صوبوں کی تعمیر وترقی میں پشتونوں کا اہم کردار رہا ہے تاہم گزشتہ کئی دہائیوں سے پشتون بیلٹ میں نہ صرف یہ کہ بدامنی کا ماحول بنا ہوا ہے بلکہ پشتون سوسائٹی کو بھی متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی ٹیک اوور کے بعد سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ ثقافتی سرگرمیوں پر بھی پابندیاں عائد ہیں جس کے باعث آبادی کی ایک بڑی تعداد کو گھٹن کی صورتحال کا سامنا ہے۔ ایسے میں تمام اسٹیک ہولڈرز پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ پشتون کلچر اور زبان کے تحفظ اور ترقی پر خصوصی توجہ مرکوز کریں تاکہ اس مصیبت زدہ قوم کی تاریخ مسخ کرنے کی کوششوں کا راستہ روکا جائے اور اس کے امیج کو درپیش چیلنجز سے نمٹا جائے۔