GHAG

پی ٹی آئی کا مزاحمتی رویہ اور وفاقی حکومت

پاکستان تحریک انصاف اور خیبرپختونخوا میں اس کی صوبائی حکومت نے گزشتہ روز بانی چیئرمین کی ہدایت پر راولپنڈی میں احتجاج یا جلسے کے نام پر ایک “مبہم” سے ایونٹ کا انعقاد کیا جس کو کامیاب بنانے کا ٹاسک وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اور ان کی حکومت کو دیا گیا تھا۔ وہ خود اس ایونٹ میں شامل ہونے پشاور سے نکلے مگر غیر متوقع طور پر راولپنڈی پہنچے کی بجائے برہان سے پشاور واپس آگئے۔ ترجمان خیبرپختونخوا حکومت بیرسٹر سیف کی طرف سے کہا گیا کہ وزیر اعلیٰ نے اس موقع پر اپنی بھرپور “طاقت” کا کامیاب مظاہرہ کیا ہے اور یہ کہ پنجاب حکومت اس موقع پر سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسا کوئی واقعہ کرنا چاہتی تھی جس کو ہم نے ناکام بنادیا۔

دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ علی امین گنڈاپور گالی کے بعد گولی چلانے کے رویے پر اتر آئے ہیں اور پی ٹی آئی ان کے بقول ایک اور 9 مئی کرنے کی مہم جوئی میں مصروف عمل ہے۔

عطاء تارڑ اور پنجاب کی وزیر اطلاعات کے علاوہ سندھ کے صوبائی وزیر سعید غنی نے بھی الزام لگایا کہ خیبرپختونخوا کی حکومت نہ صرف یہ کہ جنگ زدہ اور کرپشن زدہ خیبرپختونخوا کے سرکاری وسائل اور مشینری اپنے بانی کو ریلیف دینے کے لیے استعمال کررہی ہے بلکہ صوبائی حکومت کو وفاق اور ریاست کے خلاف لا کھڑا کیا گیا ہے جس کی کسی قیمت پر اجازت نہیں دی جاسکتی۔

مولانا فضل الرحمان نے اتوار کو پشاور میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کو ہر جگہ جلسے جلوس کا حق حاصل ہے تاہم ان کے بقول قبائلی علاقوں اور جنوبی اضلاع میں بدامنی کی جو آگ لگی ہوئی ہے اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ یہ بہت عجیب بات ہے کہ مولانا یہ بات تحریک انصاف کی بجائے عوام سے کہہ رہے ہیں حالانکہ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ صوبے میں امن کا قیام صوبائی حکومت کا ڈومین ہے اور یہ بات ان کو تحریک انصاف کی لیڈر شپ سے کہنی چاہیے جو کہ روزانہ کی بنیاد پر ان سے ملتی رہی ہے محض بیانات اور تبصروں سے صوبے کے حالات سدھرنے والے نہیں ہیں اور سب کو ہنگامی طور پر آپس میں بیٹھ کر سیکورٹی کی بگڑتی صورتحال کا نوٹس لینا ہوگا۔

اس ضمن میں خیبرپختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے گزشتہ روز تمام پارٹیوں اور اسٹیک ہولڈرز کو ایک خط لکھا ہے جس میں ان معاملات پر کسی مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

اس تمام پیچیدہ صورتحال سے نمٹنے میں ہمیں تصادم، کشیدگی اور الزامات در الزامات کے بغیر عملی طور پر کوئی سنجیدگی نظر نہیں آتی اور لگ یہ رہا ہے کہ پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے خیبرپختونخوا کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا رویہ اختیار کیا گیا ہے جو کہ ایک نامناسب رویہ ہے اور صوبے کے انتظامی معاملات ان دو طرفہ جارحانہ رویوں سے دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts