جیل میں قید پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی ہدایت پر خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت صوبے کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی قیادت میں تمام تر سرکاری وسائل سے لیس ہو کر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پر چڑھائی کی مہم جوئی پر چل نکلی ہے تاہم وفاقی حکومت نے نہ صرف سختی کے ساتھ نمٹنے کا لائحہ عمل اختیار کیا ہے بلکہ پاک فوج کے دستے بھی حرکت میں آگئے ہیں اور ریاست کی جانب سے واضح انداز میں کہا گیا ہے کہ ماضی کی طرح کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
وزیر اعلیٰ نے جس طریقے سے صوبے کے سرکاری وسائل کو پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کرنے کا راستہ اختیار کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی حالانکہ ان کے اپنے صوبے کو بدترین دہشتگردی کے علاوہ بیڈ گورننس کا سامنا ہے اور بہت سے حلقے اس صورتحال کے تناظر میں گورنر راج کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔ اس ضمن میں گورنر فیصل کریم کنڈی نے گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ ملاقات بھی کی۔
اب اس بات میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے کہ مذکورہ پارٹی اور اس کی صوبائی حکومت ریاست کے خلاف اعلان جنگ کرکے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں اور شاید اسی کا ردعمل ہے کہ ریاست بھی اب کے بار اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ ہر دوسرے ہفتے احتجاج کے نام پر ہونے والی ان سرگرمیوں نے ملک کے پورے نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے اور پاکستان کے ریاستی ڈھانچے کو خطرناک قسم کی سیاسی بغاوت کا سامنا ہے جس میں ایک وفاقی یونٹ یعنی خیبرپختونخوا کی حکومت بھی فریق بنی ہوئی ہے۔
صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے حد کرتے ہوئے بھارت تک کو اس صورتحال میں مداخلت کی دعوت دے ڈالی ہے جو کہ محض ایک ردعمل نہیں ہے بلکہ یہ مذکورہ پارٹی کی پالیسی کا ایک اظہار ہے۔ اسی طرح کی ایک کوشش یہ سامنے آئی ہے کہ مذکورہ پارٹی افغانستان کی عبوری حکومت اور ٹی ٹی پی تک کو پاکستانی ریاست کے خلاف مداخلت کے لیے رابطے کرچکی ہے اور جاری مزاحمت میں سینکڑوں افغانیوں کی شمولیت کی نہ صرف اطلاعات ہیں بلکہ درجنوں کو گرفتار بھی کیا جاچکا ہے۔
جس روز وزیراعلیٰ اسلام آباد پر چڑھائی کے لیے تگ و دو کرتے دیکھے گئے اسی روز شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑے آپریشن میں مصروف عمل تھیں جبکہ سوات میں بھی آپریشن کیا گیا۔ شمالی وزیرستان میں ہونے والے آپریشن میں پاک فوج نے 6 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا تاہم اس آپریشن میں ایک لیفٹیننٹ کرنل سمیت 5 جوان شہید ہوگئے۔ اس تمام تر صورتحال میں صوبائی حکومت کے اختیار کردہ مزاحمتی رویہ کو کسی بھی دلیل کی بنیاد پر مناسب نہیں سمجھا جاسکتا مگر مذکورہ پارٹی تمام لائنیں کراس کرنے پر تلی ہوئی ہے جس پر محض افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔