GHAG

ایک طرف شہادتیں دوسری جانب ریاست کے خلاف بغاوت

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر ہفتے کے روز ایک ایسے ماحول میں پشاور پہنچے جب راولپنڈی اسلام آباد میں پی ٹی آئی نے احتجاج کے نام پر مزاحمت شروع کر رکھی تھی اور پورا ملک ڈپریشن کی حالت میں تھا۔ ان کی آمد کا مقصد ان شہداء کی نماز جنازہ میں شرکت کرنی تھی جو شمالی وزیرستان کے علاقے سپین وام میں دہشت گردوں کے ساتھ ایک طویل جھڑپ میں شہید ہوگئے تھے۔ ان میں ایک لیفٹیننٹ کرنل بھی شامل تھے جو مذکورہ آپریشن کو لیڈ کررہے تھے۔ آرمی چیف اور کور کمانڈر پشاور نے بطور خاص ان شہداء کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور تابوت کو کندھا بھی دیا۔ اسی روز فورسز نے سوات میں بھی ایک آپریشن کیا جس میں گزشتہ ماہ غیر ملکی سفارتکاروں پر حملہ کرانے والا کمانڈر مارا گیا۔ یہ بات قابل تشویش ہے کہ اس تمام صورتحال کے تناظر میں صوبائی حکومت ہمیں صوبے کے معاملات نمٹانے پر توجہ دینے کی بجائے اپنے لیڈر کی رہائی کی مہم جوئی میں مصروف عمل ہے۔ وزیر اعلیٰ نے مرکزی قائدین کی بجائے خود خیبرپختونخوا کے قافلے کو لیڈ کیا جس کا منطقی نتیجہ ان کی گرفتاری، گمشدگی اور ڈی بریفنگ کی افواہوں کی صورت میں نکل آیا حالانکہ اگر وہ چاہتے تو دیگر قائدین یہ کام زیادہ بہتر طریقے سے سرانجام دے سکتے تھے۔ان کے فرائض منصبی میں چیف ایگزیکٹیو کے طور پر صوبے کی گورننس کے معاملات کو دیکھنا ہے نا کہ ایک صوبے کو وفاقی حکومت اور پنجاب پر چڑھائی کرنے والوں کی قیادت کرنا۔ یہ کافی تشویشناک نوعیت کی صورتحال ہے جس کے باعث صوبے کے عوام کی اکثریت اور سنجیدہ حلقے پریشانی سے دوچار ہوگئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبے کی گورننس اور سیکورٹی صورتحال پر توجہ دی جائے اور احتجاج کے نام پر مزاحمت اور بغاوت کا رویہ ترک کیا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts