پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی نے ایک بار پھر 15 اکتوبر کو ڈی چوک اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کردیا ہے۔ ایک ہنگامی اجلاس میں اس مجوزہ احتجاج کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ وفاقی حکومت اس پارٹی کے بانی عمران خان سے ملاقات کرنے کی اجازت نہیں دے رہی اس لیے احتجاج کیا جائے گا۔ اس دوران پی ٹی آئی نے حسب معمول پروپیگنڈا کیا کہ بانی کی زندگی خطرے میں ہے اور خدا نخواستہ ریاست موصوف کو قتل کرنا چاہتی ہے۔
یہ موقف نہ صرف مفروضوں پر مبنی ہے بلکہ اس منفی پروپیگنڈا کا تسلسل ہے جو یہ پارٹی شخصیت پرستی کی بنیاد پر ریاست کے خلاف کرتی چلی آرہی ہے۔ اس والے پروپیگنڈے اور مجوزہ احتجاج کا سرخیل اس پارٹی کے مرکزی رہنما عمر ایوب ہیں جو 4 اور 5 اکتوبر کو پراسرار طریقے سے اپنی پارٹی کے ڈی چوک والے ایونٹ سے غائب رہے اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور رپورٹس کے مطابق ایک مشکوک پناہ کی تلاش میں عمرایوب کے گھر ہری پور جاکر دوسروں کے علاوہ اپنے کارکنوں کی نظر میں مشکوک ٹھہرے۔
اگر ان لیڈرز کا خیال ہے کہ ریاست ان کی توقع کے مطابق ان کو پھر سے اسلام آباد جانے کی اجازت دے گی تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔
وزیر اعلیٰ کے وسائل کو بنیاد بناکر ایک اور مہم جوئی کا یہ اعلان گزشتہ ایونٹ سے قطعاً مختلف ثابت نہیں ہوگا۔ اس بات کا اس پارٹی کی لیڈر شپ کو بھی بخوبی علم اور اندازہ ہے کہ ریاست کے عزائم کیا ہے اور اس پارٹی کی حیثیت اور طاقت کتنی رہ گئی ہے۔
یہ بات اب ان لیڈرز کو سمجھ میں آنی چاہیے کہ ریاست اس پارٹی کے علاوہ کالعدم ٹی ٹی پی اور پی ٹی ایم جیسی قوتوں کے خلاف زیرو ٹاولرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ تینوں ریاست مخالف قوتیں ایک دوسرے کو سپورٹ کرتی آرہی ہیں۔ اس تمام سہ فریقی گیم کو عالمی اور علاقائی پراکسیز کی مکمل حمایت اور سرپرستی حاصل ہے اس لیے یہ مزاحمت پر اتر آئی ہیں۔
خیبرپختونخوا کی حکومت کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے اور اس کی پرفامنس عملاً نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے اس پارٹی کی کوشش ہے کہ ریاست کو ٹارگٹ کرکے اپنے لیڈر کو “خوش” کیا جائے اور اس مہم جوئی میں صوبائی حکومت کے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ایک جنگ زدہ صوبے کو مزید کشیدگی میں دھکیلا جائے۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا اس کا کسی کو اندازہ نہیں مگر یہ بات بلکل واضح ہے کہ مذکورہ پارٹی اور اس کی حکومت کے لیے سپیس کم ہوتی جارہی ہے۔