یہ بات قابل تشویش ہے کہ اگر ایک طرف کالعدم پی ٹی ایم کے منعقدہ جرگے میں زیادہ تر مقررین نے ایجنڈے کے تحت پاکستان مخالف تقاریر کا سلسلہ جاری رکھا تو دوسری طرف افغانستان، بھارت اور بعض دیگر ممالک نے کھل کر اس ایونٹ کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس کے لیے باقاعدہ مہم چلائی اور اس قسم کا تاثر دینے کی کوشش کی کہ پاکستان کے پشتون شاید اس ملک سے بغاوت پر اتر آئے ہیں۔ افغان اور بھارتی میڈیا کے علاوہ امریکہ اور برطانیہ کی اسٹیٹ کنٹرول میڈیا خاص کر ریڈیو نیٹ ورکس نے اس جرگے کو نان اسٹاپ کوریج سے کچھ اس انداز میں نوازا جیسے یہ پوری دنیا کا سب سے بڑے اجتماع یا ایونٹ ہو۔
جرگے کے دوسرے روز غیر جانبدار مبصرین نے ہجوم کی تعداد سے متعلق جو اندازے لگائے ان کے مطابق شرکاء کی تعداد 10 ہزار سے زائد نہیں تھی جس کو پاکستان میں ہونے والے عام اجتماعات کے تناظر میں قابل ذکر تعداد بھی نہیں کہا جاسکتا اس کے باوجود مذکورہ ممالک کے میڈیا نے نہ صرف مسلسل کوریج سے نوازتے ہوئے صحافت کی بجائے ایجنڈا بیسڈ کمپین میں تبدیل کردیا بلکہ عجیب وغریب تبصرے بھی نشر اور پوسٹ کیے۔
دوسری جانب افغانستان کے طالبان اور کے اہم حامیوں اور کالعدم ٹی ٹی پی نے اس جرگے کی کھل کر حمایت کی بلکہ متعدد ان اہم رہنماؤں اور سابق حکمرانوں نے بھی پرو پی ٹی ایم مہم چلائی جو کہ امریکی آشیرباد سے دوحا معاہدے سے قبل مختلف ادوار میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر وہ نان پشتون لیڈرز ہیں جن کو افغانستان کے پشتون اپنا دشمن اور مخالف سمجھتے ہیں۔ وہ اس مہم میں کیوں شامل رہے اور ٹی ٹی پی وغیرہ نے کیوں اتنی حمایت کی؟ اس نے ان اطلاعات کو درست ثابت کیا ہے کہ پی ٹی ایم بھی عالمی پراکسیز کی اس لسٹ میں شامل ہیں جن کی سرگرمیوں کا محور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے اور پی ٹی آئی اور ٹی ٹی پی کی طرح پی ٹی ایم بھی عملاً ایک ریاست مخالف تنظیم یا قوت ہے۔
پی ٹی ایم نے ہفتے کے روز مختلف شعبوں سے متعلق جو ڈیٹا پیش کیا ماہرین اس کی تفصیلات پر نہ صرف سوالات کھڑے دکھائی دیتے ہیں بلکہ عام لوگ بھی اس کو حقایق کے برعکس پروپیگنڈا بیسڈ ڈیٹا سمجھ کر اس کو اعداوشمار کے تناظر میں غلط قرار دے رہے ہیں۔ اس ڈیٹا میں غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے اور اکثر اعدادوشمار نہ صرف حکومت پاکستان کے ڈیٹا کے برعکس ہیں بلکہ عالمی اور مقامی معتبر تھنک ٹینکس اور رپورٹس سے بھی بہت مختلف ہیں۔
اس ایونٹ نے پی ٹی ایم کی مقبولیت کے تاثر کے علاوہ اس کے مقاصد اور پروپیگنڈا مشینری کو بھی بے نقاب کردیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ متعدد اہم ماہرین اور تجزیہ کار پی ٹی ایم ، پی ٹی آئی اور ٹی ٹی پی کو جہاں ایک پیج پر جمع پاکستان مخالف قوتیں قرار دے رہے ہیں وہاں اس دعوے یا تاثر کو بھی تقویت ملی ہے کہ ان کے درمیان ایک مضبوط “بانڈ” موجود ہے جس کو متعدد پاکستان مخالف ایجنسیوں اور پراکسیز کی آشیرباد بھی حاصل ہے۔