GHAG

پی ٹی ایم کے مطالبات،ڈیٹا اور زمینی حقائق

کالعدم قرار دینے والی تنظیم پشتون تحفظ موومنٹ کا تین روزہ جرگہ گزشتہ شب بخیریت اختتام پذیر ہوا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس ایونٹ کے دوران بعض قوتوں کی خواہش اور کوشش کے باوجود کسی تصادم یا کشیدگی کی نوبت نہیں آئی اور جرگہ کے منتظمین کے علاوہ متعلقہ اداروں اور تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کیا۔ اس ایونٹ سے قبل نہ صرف پی ٹی ایم بلکہ اس کے بعض حامی حلقوں نے کچھ ایسا عجیب و غریب طرزِ عمل اپنایا اور ایسا پروپیگنڈا کیا گیا کہ ریاست کو اسے کالعدم قرار دینا پڑا۔ اس کی نوبت کیوں آئی اس کی ذمہ داری پی ٹی ایم کے “نادان دوستوں” پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے بدنظمی اور پروپیگنڈا گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بدگمانیاں پیدا کیں اور اچارنما تنظیمی ڈھانچے کے باعث ہر کسی نے اپنی ریاست مخالف پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ پر توجہ دی۔

یاد رہے کہ پی ٹی ایم اب بھی ریاستی فیصلے کے مطابق کالعدم ہے اس کو اس ایونٹ کی اجازت اس جرگے کی خواہش، تجویز اور ضمانت پر دی گئی تھی جو وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقد ہوا تھا۔ شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ جرگے کے اختتام پر جو بے ترتیب قسم کا اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں کہا گیا کہ جرگے کے منتظمین، شرکاء اور دیگر کے خلاف اگر کوئی کارروائی کی گئی تو اس کی مخالفت اور مزاحمت کی جائے گی۔

فراہم کردہ نکات یا اعلامیہ کے مطابق اگلے اتوار کو تمام ضلعی ہیڈکوارٹرز میں احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔ اگر یہ نکتہ یا اعلان واقعتاً جینون ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احتجاجی مظاہروں کی اتنی جلد نوبت ہی کیوں آئی؟

اعلامیہ نہ صرف بے ترتیب اور مبہم ہے بلکہ یہ متعدد تضادات پر بھی مشتمل ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ پی ٹی ایم جہاں بظاہر بہت سے لیڈرز اور گروپوں کا ملغوبہ ہے وہاں اس کو فیصلہ سازی اور “منیجمنٹ” کے تناظر میں منظور پشتین پر مشتمل “ون مین شو”  کا نام دیا جاسکتا ہے اور تمام معاملات وہ خود ہی سنبھالتے رہتے ہیں۔ اس تین روزہ ایونٹ کے دوران دوسروں کی اجتماعی نمائندگی اور تقریروں کے ساتھ اگر صرف اکیلے منظور پشتین کا موازنہ کیا جائے تو وہ سب پر “بھاری” نظر آتے ہیں۔

دوسری بات یہ نوٹ کی گئی کہ اس جرگے سے پشتونوں کے متعدد سینیئر اور قدآور رہنما لاتعلق اور غیر حاضر رہے۔ اس ضمن میں دوسروں کے علاوہ محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمان، افراسیاب خٹک اور آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی مثال دی جاسکتی ہے جن کو پشتون بیلٹ کے علاوہ پورے ملک میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ عام لوگوں نے جہاں ان لیڈرز کی لاتعلقی پر سوالات اٹھائے وہاں بعض متنازعہ شرکاء بلکہ منتظمین کی غیر معمولی اہمیت اور کردار پر بھی حیرت کا اظہار کیا گیا جن کو عام طور پر بہت مشکوک سمجھا جاتا ہے اور ان کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ انہوں نے اس جرگے کو اپنے ذاتی اور کاروباری مقاصد، فوائد کے لیے استعمال کیا۔

جہاں تک فراہم کردہ ڈیٹا اور پھر اعلامیہ میں شامل بعض اہم نکات کا تعلق ہے وہ نہ صرف یکطرفہ اور مشکوک ہیں بلکہ ناقابل عمل بھی نہیں ہیں اس بنیاد پر خلاصے کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اس تمام ایونٹ کا بنیادی ریاست کو “کٹہرے”  میں لاکھڑا کرنے کے سوا کچھ نہیں تھا اور شاید اسی کا ردعمل تھا کہ بعض ریاست بیزار گروپوں کے علاوہ کالعدم ٹی ٹی پی اور پی ٹی آئی جیسی قوتوں نے بھی اس ایونٹ کی نہ صرف حمایت کی بلکہ یہ قوتیں پروپیگنڈا مشینری کے استعمال میں فریق بھی بنی دکھائی دیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts