GHAG

ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائی گئی قوم؟

پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی جانب سے جاری اعلامیہ اور نکات کے بعد سیاسی اور صحافتی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے اور اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ پشتون انتہاپسند ہیں یا نہیں؟ یا باالفاظ دیگر یہ کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی دوسری قوتوں نے ہم پر مسلط کی یا ہم خود بھی اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں؟
یہ بہت لمبی مگر شاید ایک غیر ضروری بحث ہے کیونکہ معاملہ نہ صرف بہت پیچیدہ ہے بلکہ اس کی عالمی اور علاقائی چیلنجز اور پراکسیز کے تناظر میں بہت سی جہتیں ہیں اور سیاسی بیانیہ یا ماضی کریدنے کی بجائے کرنٹ افیئرز کے فارمولے اور ضرورت کے تحت آج اور آنے والے کل کے پیش منظر میں تبصرے اور تجزیے کی زیادہ ضرورت ہے۔ بہرحال دو تین نکات یا معاملات پر بحث ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ دہشت گردی صرف خیبرپختونخوا یا پشتونوں کا مسئلہ نہیں ہے پورے پاکستان کا ایشو ہے اور اسی لہر میں سانحہ کارساز اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کے علاوہ 2002۔03 کے دوران اس وقت کے صدر پرویزمشرف پر راولپنڈی میں ہونے والے دو خودکش حملوں سمیت پریڈ لاین پر ہونے والے حملے سمیت دیگر لاتعداد واقعات کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ پشتون اور بلوچ علاقے اس لیے زیادہ متاثر ہوئے کہ ایک تو ان کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ ملی ہوئی ہیں اور دوسرا یہ کہ پاکستان کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ٹی ٹی پی نے قبائلی علاقوں سے جنم لیا جس کی مقامی آبادیوں نے نہ صرف حمایت کی بلکہ سہولت کاری بھی کی گئی۔
اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ سال 2007 کو وزیرستان میں قائم ہونے والی ٹی ٹی پی کے تمام امیر (سربراہان) اور تقریباً 90 فی صد کمانڈرز اور جنگجو نسلی طور پر پشتون رہے اور یہ ڈھانچہ اس وقت تک موجود ہے۔
دوسری جانب امارت اسلامیہ افغانستان کا تنظیمی اور لسانی ڈھانچہ بھی ٹی ٹی پی کی طرح پشتونوں پر مشتمل رہا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ دونوں قوتیں ایک دوسرے کو سپورٹ کرتی رہی ہیں۔
اس تلخ حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ مختلف اوقات میں متعدد پشتون قوم پرست نہ صرف ان مذہبی انتہا پسند گروپوں کو بوجوہ سپورٹ کرتے رہے بلکہ اس وقت بھی ریاست مخالف بیانیہ کے تناظر میں ایک دوسرے کی “سہولت کاری” کا سلسلہ جاری ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ پشتون علاقوں خصوصاً سابق فاٹا میں ہزاروں مقامی لوگوں نے جہاں ایک طرف القاعدہ اور ٹی ٹی پی، داعش کو سپورٹ کیا بلکہ بہت سے لوگوں نے عرب، افغان،چیچن اور ازبک جنگجووں سے رشتے داریاں بھی قائم کیں اور ایک وقت میں حالات اتنے پیچیدہ اور خراب ہوگئے کہ ایک مشہور سنٹرل ایشین کمانڈر طاہر یلدیشوف کے خلاف وزیرستان کے بعض حلقوں نے پاکستانی فورسز کی حمایت سے باقاعدہ لشکر کشی کردی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی ماضی کی حکمرانوں نے پراکسیز کے تناظر میں بوجوہ متعدد انتہاپسند گروپوں کو سپورٹ کیا جس کی ایک بڑی وجہ سابق فاٹا میں ریاست کی عدم عملداری کا ایشو تھا اس کے باوجود اس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ اسی پاکستانی ریاست نے تقریباً تمام گروپوں کے خلاف تقریباً ایک درجن بڑے آپریشن کیے اور اس سلسلے میں گزشتہ کئی برسوں سے فورسز کی نان اسٹاپ کارروائیاں جاری ہیں جن میں فورسز کے سینکڑوں جوان اور افسران شہید ہوگئے ہیں۔
پی ٹی ایم نے اس صورتحال کی ذمہ داری پاکستان کی ریاست پر ڈال کر تلخ تاریخی حقائق اور پس منظر سے روگردانی کی ہے اور اب تو اس تنظیم کے خلاف ٹی ٹی پی کی جانب سے “اعلان جنگ” پر مشتمل ایک غیر مصدقہ بیان بھی سوشل میڈیا پر زیر گردش ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پی ٹی ایم نے خیبرپختونخوا سے ٹی ٹی پی اور دیگر کو باہر نکالنے کا ڈیڈ لائن دیکر ٹی ٹی پی کی دشمنی مول لی ہے۔ اس ضمن میں کالعدم ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان سمیت متعدد دیگر کے بیانات بھی سامنے آئے ہیں جن میں پی ٹی ایم کو دھمکیاں دی گئی ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر ایک طرف یہ گروپ بغض ریاست میں ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے رہے ہیں تو دوسری جانب یہ ایک دوسرے پر بھی چڑھ دوڑنے سے گریز نہیں کرتے اور اب تو صورتحال یہ بن گئی ہے کہ بلوچستان کے پشتون علاقے دوکی میں گزشتہ ہفتے ہونے والے حملے پر بھی بی ایل اے اور متعدد دیگر کے علاوہ بعض پشتون قوم پرست بھی بلیم گیم کرنے چل پڑے ہیں۔
جس رات پی ٹی ایم کا اعلامیہ سامنے آیا اس سے اگلے روز بنوں میں پانچ برقعہ پوش دہشت گردوں نے پولیس ہیڈکوارٹر پر حملہ آور ہوکر 4 پولیس اہلکاروں کو شہید کردیا جبکہ فورسز کی جوابی کارروائی میں تمام حملہ آوروں کو ہلاک کردیا گیا تاہم حیرت کی بات یہ رہی کہ مذکورہ تنظیم اور اس کے ہم خیالوں نے حسب روایت اس حملے کی بھی کوئی رسمی مذمت نہیں کی جس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر متعلقہ معاملات، ایشوز اور سرگرمیوں کو کنفیوژن سے دوچار کرنے کے رویے اختیار کیے گئے ہیں تاکہ عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے فارمولے کے تحت منتشر اور تقسیم رکھا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts