GHAG

پارلیمنٹ کی بالادستی اور ریاست مخالف سرگرمیاں

26 ویں آئینی ترامیم پر سینیٹ میں بحث کرتے ہوئے پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتوں نے پارلیمنٹ اور اس کے فیصلوں کو سپریم اور حتمی قرار دیتے ہوئے دو ٹوک انداز میں واضح کردیا ہے کہ طاقت کا سر چشمہ عوام اور ان کا نمائندہ پلیٹ فارم پارلیمنٹ ہے۔ اسی تناظر میں صرف پی ٹی آئی کو چھوڑ کر تمام پارلیمانی لیڈرز نے مشترکہ موقف اختیار کیا کہ عدلیہ سمیت تمام اداروں سے متعلق فیصلہ سازی کا اختیار پارلیمنٹ کو حاصل ہے اور ججز سمیت کوئی بھی خود کو پارلیمنٹ سے بالاتر نہ سمجھے۔

اس اہم اجلاس میں پی ٹی آئی نے حسب معمول بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے مجوزہ ترامیم پر اس کے باوجود اپنے بانی چیئرمین کی اجازت نہ دینے کا جواز پیش کیا کہ پارٹی نے نہ صرف یہ کہ مولانا فضل الرحمان کو مینڈیٹ دیا تھا بلکہ بقول بیرسٹر علی ظفر ان کے کہنے پر ڈرافٹ سے متعدد شقیں نکال دی گئیں۔ یہ بات بہت عجیب ہے کہ اگر پی ٹی آئی نے تمام فیصلے حسب سابق عمران خان کی رضامندی سے مشروط کرلی تھیں تو ترامیم میں تبدیلیوں اور پارلیمانی کمیٹی کے ایک ماہ پر محیط اجلاسوں میں شرکت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اے این پی کے سربراہ ایمل ولی خان نے بعض دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ 9 مئی کے روز پاکستان کی دفاعی تنصیبات پر حملے کرنے والوں کے خلاف نہ صرف سخت ترین کارروائی کی جائے بلکہ ان واقعات کو آئینی ترامیم کا حصہ بھی بنایا جائے۔ ان کے مطابق ان کے کارکنوں اور آباؤ اجداد کے خلاف کئی دہائیوں تک کارروائیاں کی گئیں جن میں 12 اگست 1948 کا سانحہ بابڑہ بھی شامل ہے مگر انہوں نے کبھی  دفاعی یا حکومتی تنصیبات پر حملہ نہیں کیا کیونکہ یہ ادارے اور پاکستان ہم سب کے ہیں اور ہم نے ان پر حملوں کی بجائے ان کا دفاع کرنا ہے۔ پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمان اور ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سمیت دیگر نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا جس کے بعد سینیٹ سے 26 ویں آئینی ترمیم کا بل کثرت رائے سے پاس کردیا گیا۔

تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران سپریم کورٹ اور ایک مخصوص پارٹی نے عالمی پراکسیز اور پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے ملکی نظام کو جس انداز میں مفلوج اور مشکوک قرار دینے کی کوشش کی گئی اس تمام پراسیس نے پاکستان کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا اس لیے لازمی تھا کہ بعض ناپسندیدہ اور سخت فیصلے کرتے ہوئے نظام میں موجود نقائص کو دور کیا جائے اور ادارہ جاتی کشیدگی یا سازشوں کا راستہ روک دیا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts