GHAG

انتشار پسندی کا منطقی انجام

حکومت نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے ساتھ ہونیوالی ملاقاتوں پر پابندی عائد کردی ہے یا پنجاب کے تقریباً تمام جیلوں پر بعض سیکورٹی خدشات کے تناظر میں پابندی عائد کی گئی ہے اس بحث سے قطع نظر تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم اور ان کی پارٹی کے گھرد واقعتاً گھیرا تنگ ہوگیا ہے اور اس صورتحال کا تمام “کریڈٹ” خود عمران خان کی جارحانہ انداز سیاست ہی کو جاتا ہے جس کے باعث وہ نہ صرف بند گلی میں لاکھڑے ہوگئے ہیں بلکہ ان کے “کارڈز” کے علاوہ ان کے پاس موجود “مہرے” بھی ختم ہوکر رہ گئے ہیں۔ نرگسیت اور خوش فہمیوں کے شکار سابق وزیر اعظم نے جہاں ایک طرف ہر کسی کو دشمن بنانے کی پالیسی اختیار کئے رکھی وہاں دوسری طرف انہوں نے اپنی پارٹی کی اپنی نامزد کردہ لیڈرشپ کو بھی “ہٹلر فارمولا” کے تحت اپنی شخصیت کی سحر میں جکڑ کر ان پر نہ تو کبھی اعتماد کیا اور نا ہی ان کے  کسی مشورے کو اہمیت دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی پارٹی آگے بڑھنے کی بجائے گزشتہ چند مہینوں کے دوران پیچھے جاتی دکھائی دی اور اس وقت یہ پارٹی اس کے مضبوط گڑھ خیبرپختونخوا میں بھی تقریباً 4 گروپوں میں تقسیم ہوکر رہ گئی ہے۔ اسی تقسیم اور اختلافات کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ دنوں دی گئی دو احتجاجی کالز کے دوران چند سو کارکن بھی احتجاج کرنے نہیں نکلے اور اب تو حالت یہ ہوگئی ہے علی امین گنڈاپور کی زیرقیادت صوبائی حکومت بھی کسی بڑی “مہم جوئی” میں حصہ لینے سے گریز کی پالیسی پر گامزن ہوگئی ہے۔

عین اسی صورت کا پارٹی کو پنجاب میں بھی سامنا ہے اور ان اطلاعات کو محض پروپیگنڈا یا تاثر قرار نہیں دیا جاسکتا کہ عمران خان واقعتاً ڈپریشن کا شکار ہوگئے ہیں اور غالباً اسی کا ردعمل ہے کہ حکومت نے ان کی مزید کسی “مہم جوئی” سے بچنے کے لیے غیر اعلانیہ طور پر ایک ٹیکٹکل لائن لیکر ان کی ملاقاتوں پر پابندی عائد کردی ہو۔

بعض حلقے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ 26 ویں آئینی ترمیم کی مشاورتی پراسیس کے دوران پی ٹی آئی کے متعدد اہم لیڈروں نے مولانا فضل الرحمان اور بعض دیگر کو یہاں تک کہا کہ وہ عمران خان کی مزاحمتی سیاست سے تنگ آگئے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ وہ کسی بہانے اب  “آرام” کریں۔ حال ہی میں جب ایک ناقص اور غیر سنجیدہ طرز عمل کے باعث 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کی شکل میں اس پارٹی کو شدید دھچکا بلکہ “جھٹکا” لگ گیا تو بجائے کسی نظر ثانی کی اس پارٹی کے “کی بورڈ واریئرز” نے سوشل میڈیا کے بے لگام ہینڈلرز کی روایتی تقلید میں اپنے ہی بعض ممبران اسمبلی اور سینیٹرز پر غداری کے الزامات لگاتے ہوئے ان کی بے عزتی کی وہ مہم شروع کی جس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ مروجہ پارلیمانی طریقہ کار کے برعکس اپنے ممبران اسمبلی کی جس انداز میں کردار کشی کی گئی اور جس طریقے سے بعض مرکزی قائدین نے وفاداری تبدیل کرنے کی درکار ثبوتوں کے بغیر عمران خان کی خوشنودی حاصل کرنے اور کارکنوں کی جھوٹی” کیتھارسس” کے لیے الفاظ و القابات استعمال کیے اس سے اس تاثر کو ایک بار پھر تقویت ملی کہ جس پارٹی کو مقبول سیاسی قوت کا نام دیا جارہا ہے وہ محض اس کے بانی کا ایک فین کلب ہے جس کے آغاز اور اختتام دونوں کی بنیاد بانی کی ذات اور خواہشات سے جڑی ہوئی ہے۔

جاری طرز عمل کے باعث جہاں ایک طرف اس پارٹی کا  “فین کب” والا اسٹیٹس بھی بری طرح متاثر ہونا شروع ہوگیا ہے اور مخلص کارکن تھکاوٹ، مایوسی سے دوچار ہونے لگے ہیں وہاں دوسری جانب ریاست کی گرفت بھی دن بدن سخت ہوتی دکھائی دیتی ہے اور بعض ججز کی  فراہم کردہ چھتری اگر توقعات اور پلاننگ کے تحت سر پر نہیں رہی تو رہی سہی امید اور کسر بھی ختم ہوکر رہ جائے گی اور یہ پارٹی ایک منطقی انجام سے دوچار ہوجایے گی ۔ قراین سے بہت واضح انداز میں لگ یہ رہا ہے کہ دباؤ ڈالنے کی آخری کوشش وکلاء کے اعلان کردہ احتجاج کی صورت میں سامنے آسکتی ہے تاہم یہاں بھی یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پچھلی دفعہ جب ایسی ہی ایک کال دی گئی تو دوسرے وکلاء تو دور کی بات انصاف لائرز فورم کے وکلاء بھی احتجاج کرنے نہیں نکلے اور محض چند درجن افراد میدان میں دکھائی دیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts