بعض ریاست بیزار حلقوں کو اس بات پر شدید “اعتراض” ہے کہ نامور کرکٹر شاہد خان آفریدی نے جمرود میں ایک تقریب کے دوران یہ بات کیوں کی ہے کہ ہم سب نے امن ، ترقی اور خوشحالی کے لیے حکومت اور اپنی فورسز کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا۔ اس بات پر بھی متعلقہ حلقے معترض ہیں کہ شاہد آفریدی جمرود کیوں آئے ہیں۔ یہ ایک انتہا پسندانہ اپروچ ہے کہ اتنے بڑے پشتون اسٹار کو بھی متنازعہ بنانے کی مہم جوئی کی گئی۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو قوم پرست حلقے اور 9 مئی کی ذمہ دار پارٹی ایسے معاملات میں ریاست مخالف بیانیہ کیوں تشکیل دیکر یہ بتانے کی ناکام کوشش میں مصروف عمل ہیں کہ گویا پاکستان کے پشتون کسی ریاست مخالف سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ یہ بیانیہ وہ ڈپریشن زدہ حلقے بھی آگے بڑھاتے رہے ہیں جو نہ صرف پاکستان کے ریاستی اور حکومتی سسٹم کا حصہ بنے رہے ہیں بلکہ پاکستان کو موجودہ حالات تک پہنچانے میں بھی ان کا ایک بنیادی کردار رہا ہے۔ یہ لوگ جب اپنے سیاسی اور گروہی مفادات کے تناظر میں سسٹم کا حصہ ہوتے ہیں تو پاکستان میں سب کچھ ان کو ٹھیک نظر آتا ہے مگر جب سسٹم سے باہر ہو تو یہ مایوسی پھیلانے میں مصروف ہوجاتے ہیں اور اگر ان کو کچھ خاص بیانیہ یا پروپیگنڈا ہاتھ نہ آئے تو یہ “لر او بر” کا نعرہ لگانے لگ جاتے ہیں حالانکہ افغانستان ایک الگ ملک ہے اور وہاں کے عوام اور حکمران ہمارے اس مخصوص طبقے کو عملاً کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے۔ ماضی پرستی سے دوچار اس طبقے کو شاہد آفریدی جیسے لوگ صرف اس وقت اچھے لگتے ہیں جب وہ ان کی خواہش کے مطابق پاکستان کو گالیاں دینا شروع ہوجایے۔ یہ نہ صرف ایک غیر حقیقت پسندانہ رویہ ہے بلکہ ایسا کرتے وقت اس حقیقت کو بھی بھلایا جاتا ہے کہ پشتون پاکستان کے اسٹیک ہولڈرز ہیں اور تمام تر تحفظات اور شکایات کے باوجود پشتونوں کا مستقبل پاکستان سے وابستہ ہے۔ اس لیے زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے عام پشتونوں اور نئی نسل کو مایوس اور گمراہ کرنے کا رویہ ترک کیا جائے۔
دوسری جانب بنوں کے علاقے بکا خیل میں ایک طویل جھڑپ کے نتیجے میں پاک فوج کے ایک میجر سمیت تین جوانوں شہید ہوگئے جبکہ متعدد دہشت گردوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اس سے ایک روز قبل اورکزئی سمیت خیبر پختونخوا کے پانچ اضلاع میں مختلف دہشت گرد حملوں کے دوران خیبرپختونخوا پولیس کے تقریباً نصف درجن اہلکاروں کو شہید کردیا گیا۔ اورکزئی میں فورسز نے تین خوارج بھی ہلاک کیے۔
اس تمام صورتحال کے تناظر میں اس بات کی شدت کے ساتھ ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ امن دشمن قوتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کی بجائے ریاست کے ساتھ تعاون کیا جائے اور صوبائی حقوق کی حصول کی جدوجہد دیگر قومیتوں اور صوبوں کی طرح پاکستان کے آئینی اور سیاسی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے کی جائے۔ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ منفی پروپیگنڈا سے گریز کرتے ہوئے خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں دونو ں سے نکلا جائے۔