GHAG

لہو لہو کوئٹہ اور ہماری ترجیحات

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے ریلوے اسٹیشن پر ایک خودکش حملے کی صورت میں ہفتے کی صبح ساڑھے آٹھ بجے اس وقت قیامت ڈھادی گئی جب سینکڑوں لوگ دو مختلف ٹرینوں کے ذریعے پشاور اور چمن جانے کے منتظر تھے۔ ایک خودکش بمبار نے ان کے درمیان گھس کر خود کو اڑادیا جس کے نتیجے میں فوری طور پر 22 افراد موقع پر شہید ہوگئے جبکہ 40 زخمی ہوئے ۔ شدید زخمیوں میں سے متعدد دیگر نے اسپتالوں میں دم توڑ دیا جس کے باعث شہداء کی تعداد 26 یا 28 ہوگئی۔ مزید 10 زخمیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی حالت نازک ہے ۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق شہداء میں فورسز کے تقریباً 12 بعض وہ جوان بھی شامل ہیں جو کہ ایک ٹریننگ کے بعد اپنے گھروں اور یونٹوں کو واپس جارہے تھے اور ان میں اکثریت کا تعلق خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں سے ہے کیونکہ جعفر ایکسپریس نامی ٹرین نے 9 بجے کوئٹہ سے پشاور آنے کے لیے پلیٹ فارم سے نکلنا تھا۔ شہداء میں دو خواتین بھی شامل ہیں جبکہ زخمیوں میں بعض بچوں کی موجودگی کی اطلاعات بھی ہیں۔

حملے کے فوری بعد بلوچستان میں فورسز اور شہریوں کو نشانہ بنانے والی کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی اور مؤقف اختیار کیا کہ انہوں نے پاکستانی فوج کو نشانہ بنایا ہے اور یہ کہ یہ کارروائی اس کی دہشت گرد ونگ مجید بریگیڈ نے سرانجام دی ہے۔ تاہم اس بات پر نہ تو کوئی ندامت ظاہر کی گئی اور نا ہی کوئی وضاحت پیش کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی کہ اس حملے میں جو لوگ شہید اور زخمی کئے گئے ان میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ عجیب وغریب صورتحال اس وقت پیش آئی جب نام نہاد سوشل میڈیا پر بلوچستان حکومت اور بعض اداروں کے “غیر رسمی” ترجمانوں نے تفصیلات جانے بغیر اتنے بڑے سانحے اور حملے کے بعد یہ بتانا شروع کردیا کہ فوج کے ایک گروپ پر ہونے والا حملہ “ناکام” رہا ہے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس قسم کے ترجمانوں اور دوستوں کے ہوتے ہوئے پاکستانی ریاست اور معاشرے کو کسی دشمن کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ نہ تو درست معلومات کی حصول کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نا ہی ان کو اپنی کہی اور پھیلائی گئی بات کے پیش منظر کا کوئی ادراک ہوتا ہے۔ ایک بھی معصوم انسان کے قتل اور شہادت کو نہ صرف یہ کہ اسلام نے انسانیت کا قتل قرار دیا ہے بلکہ اس قسم کے حملوں کو ریاست اور سوسائٹی کے خلاف اعلان جنگ سمجھا جاتا ہے تاہم یہاں معاملہ مختلف ہے اور اس کا اندازہ وفاقی وزیر اطلاعات کے اس رویے سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس وقت یہ حملہ ہوچکا تھا موصوف نیوز چینلز پر اپنی لائیو گفتگو میں کوئی عام سا عامیانہ بیان دینے میں مصروف عمل تھے۔ یہ اس جانب اشارہ ہے کہ تب تک موصوف کو اتنے خوفناک دہشت گرد حملے کی اطلاع بھی نہیں ملی تھی ۔ اس پر ستم یہ کہ جب وزیر اعظم شہباز شریف کا مذمتی بیان سامنے آیا تو اس میں کہا گیا کہ ” کوئٹہ ریلوے اسٹیشن کے قریب” ہونے والے ایک دہشت گرد حملے کی وزیراعظم نے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے ۔ مطلب وزیراعظم جیسے منصب پر فائز حکومتی عہدیدار کی “باصلاحیت اور باخبر” ٹیم کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ حملہ ریلوے اسٹیشن کے قریب نہیں بلکہ اس کے اندر ہوا تھا ۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان اور دیگر نے بھی وہی روایتی بیانات جاری کیے۔ مثلاً یہ کہ دہشت گردوں کا قوم یا مذہب نہیں ہوتا یا یہ کہ ان کے ساتھ سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ ۔

ظاہر سی بات ہے کہ جب ہمارے حکمرانوں کا طرز عمل اس نوعیت کا اسٹیریوٹائپ ہوگا تو پھر وہی ہوگا جو کہ ہوتا آرہا ہے ۔ روزانہ کی بنیاد پر ہمارے جوان بھی شہید ہوں گے اور عام شہری بھی نشانہ بنیں گے۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے اس واقعے کے باوجود اسلام آباد میں روٹین کے مطابق منعقدہ ایک ایونٹ میں شرکت کی تو دوسری جانب ملک کی “نام نہاد” سب سے مقبول پارٹی نے صوابی میں ریاست مخالف اجتماع کا انعقاد کرتے ہوئے ڈول باجوں پر اپنے زیر حراست بانی کی خوشنودی اور رہائی کے لیے مریں گے یا ماریں گے کے اعلانات کیے حالانکہ اس پارٹی کی زیرحکومت صوبہ خیبرپختونخوا کو بذاتِ خود بدترین قسم کی دہشت گردی کا سامنا ہے اور کوئٹہ حملے سے 24 گھنٹے قبل خیبرپختونخوا کے 4 علاقوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

اس تمام صورتحال اور جاری رویوں کے تناظر میں اگر ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ پاکستان میں امن قائم ہوگا یا استحکام آئے گا تو یہ ایک بڑی خوش فہمی کے علاوہ حماقت ہی کہلائی جاسکتی ہے کیونکہ زمینی حقائق اور درپیش چیلنجز کچھ اور ہیں اور بدقسمتی سے ہماری قیادت اور ان کے “ترجمانوں” کو موجود چیلنجز کا سرے سے شاید ادراک اور احساس بھی نہیں ہے ۔

ہو بہو یہی رویہ نام و نہاد مین سٹریم میڈیا کا ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر بیانات اور الزامات کا ایک “سرکس” لگایا جاتا ہے اور سیاسی قائدین ، حکومتی عہدیداران ، مہا قسم کے چند مخصوص “ماہرین” ایک دوسرے پر جھپٹتے نظر آتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts