ایک زمانے میں خیبرپختونخوا کے موجودہ ضم اضلاع کو صوبے اور ملک کے دوسرے علاقوں کے لوگ “علاقہ غیر” کہہ کر پکارا کرتے تھے کیونکہ ان قبائلی اضلاع میں مروجہ قوانین لاگو نہیں ہوتے تھے اور بعض دیگر سرگرمیوں کے علاوہ یہاں بندوبستی علاقوں سے مفرور آکر رہا کرتے تھے ۔ موقع ملنے اور ضرورت پڑنے پر وہ پھر سے اپنے علاقوں میں جاکر کوئی “واردات” کرکے واپس لوٹ آتے اور اس پریکٹس میں ان کو اس نیچر کے مقامی لوگوں کی معاونت حاصل رہتی۔ ایسی ہی ایک پریکٹس ہمیں افغان جہاد اور اس کے بعد نائن الیون کے بعد دیکھنے کو ملی جب فاٹا کی مخصوص اسٹیٹس کا فائدہ اٹھاکر مختلف جہادی یا دہشت گرد گروپ یہاں نہ صرف قیام کرنے لگے بلکہ انہوں نے ریاستی کمزوریوں یا اس وقت کی پالیسیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس “علاقہ غیر” کو بطور بیس کیمپ استعمال کیا ۔
تاہم یہ بات کسی کی وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ ایک جدید دور کا خیبرپختونخوا اور اس کا دارلحکومت پشاور ایک “جدید” سیاسی پارٹی کے دور حکومت میں پھر سے “علاقہ غیر” میں تبدیل ہوگا اور ایک جنگ زدہ صوبے کے سرکاری وسائل اور مشینری کو حکومتی سرپرستی میں ریاست سمیت اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔
اس وقت صوبے میں دو بڑے خوفناک قسم کی سرگرمیاں یا “ایونٹس” پوری شدت اور اہتمام کے ساتھ جاری ہیں۔ ایک تو یہ کہ گزشتہ چند دنوں کے دوران خیبرپختونخوا کے تقریباً 11 اضلاع میں دہشت گردی اور انسداد دہشت گردی کے واقعات ہوئے۔ ان واقعات یا کارروائیوں کے نتیجے میں دو طرفہ طور پر تقریباً 25 افراد جاں بحق ہوئے۔ ان میں فورسز کی کارروائیوں کے علاوہ پولیس اہلکاروں اور بعض اہم سیاسی قائدین کے خلاف ہونے والے حملے سرفہرست ہیں۔ یہاں تک صورتحال پہنچی کہ ایک سابق ایم پی اے نے ایک موجودہ رکن صوبائی اسمبلی پر الزام لگایا کہ اس نے ذاتی اور سیاسی دشمنی میں انہیں نشانہ بنانے کے لیے ان کے ایک ڈرائیور کو خودکش بنانے پر تیار کیا مگر وہ ہدف تک پہنچنے سے قبل چارسدہ میں بارودی مواد کا خود شکار ہوا۔ ایک اور حملے میں جماعت اسلامی کے ایک اہم لیڈر کو شہید کردیا گیا۔
دوسرا ایونٹ پی ٹی آئی کے اعلان کردہ 24 نومبر کے اسلام آباد پر ہونے والی “چڑھائی” کے حوالے سے جاری ہے جو کہ سرکاری پروٹوکول اور تیاری کے ساتھ زیر پریکٹس ہے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے علیمہ خان اور بشریٰ بی بی کی خصوصی ہدایات پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں ممبران اسمبلی، ٹکٹ ہولڈرز اور پارٹی عہدیداروں کو پشاور میں “مہمان” بنایا ہوا ہے اور مزید کو پہنچنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ پشاور کو محفوظ مورچے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد کا “معرکہ” ایک جنگ زدہ صوبے کے سرکاری وسائل بلکہ پروٹوکول کے ساتھ سرانجام دیا جائے ۔ ان “معزز مہمانوں” کی میزبانی کے لئے سی ایم ہاؤس کے علاوہ پشاور اور 2 دیگر نواحی شہروں کے تقریباً ایک درجن سرکاری عمارتوں اور ریسٹ ہاؤسز کو مختص کیا گیا ہے جو کہ ملکی تاریخ کا اس پس منظر میں پہلا انوکھا تجربہ ثابت ہوگا کہ ایک صوبائی دارالحکومت کو وفاقی دارالحکومت اور دوسرے صوبے کے خلاف سرکاری انتظامات اور پروٹوکول کے ساتھ بطور مورچہ اور مرکز استعمال کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق اس وقت پشاور میں دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے تقریباً 80 اہم عہدیدار اور ممبران اسمبلی سرکاری مہمان بنے ہوئے ہیں اور مزید پہنچنے والے ہیں یوں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ان انقلابیوں کے لیے ماضی کے مفروروں کی طرح آج پورا خیبرپختونخوا “علاقہ غیر” بنا ہوا ہے۔