خالد خان
تیسرا حصہ
عدم تشدد کے علمبردار خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان افغانستان کے سرحد کے قریب واقع “چمرکنڈ” کے علاقے کی جانب محو سفر تھے تاکہ برصغیر کی آزادی کے لئے انگریزوں کے خلاف فوجی تربیتی مرکز کے قیام کی جگہ کا انتخاب کرے۔ عسکری مرکز کے آزاد پشتون قبائلی علاقے میں قیام کا فیصلہ جنوری 1914 میں دیوبند میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی سربراہی میں کیا گیا تھا۔ اس خفیہ اجلاس میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی تحریری دعوت پر باچا بھی شریک ہوئے تھے جبکہ دیگر شرکاء میں مخفی صاحب، مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا عزیر گل اور مولانا فضل ربی شامل تھے۔ یہ اجلاس دیوبند میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے گھر پر منعقد ہوا تھا۔ اجلاس میں برصغیر کی آزادی کے لیئے دو جہتی منصوبہ بندی ترتیب دے دی گئی جس میں دو مراکز کے قیام کا فیصلہ ہوا۔ سیاسی مرکز کا قیام ہندوستان میں ہوتا جبکہ گوریلا جنگ کے لیئے فوجی تربیتی مرکز کا قیام انگریز کی رسائی سے دور آزاد پشتون قبائلی علاقے میں کیا جاتا۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور مولانا عبیداللہ سندھی کی رائے تھی کہ بونیر میں مقیم سید احمد شہید بریلوی اور اسماعیل شہید بریلوی کے زندہ بچ جانے والے مجاہدین کو ساتھ شامل کیا جائے اور انہی کے مرکز کو بروئے کار لایا جائے۔ عسکری کاروائیوں کے بارے میں ان اکابرین کے درمیان پہلے بھی متعدد رسمی اور غیر رسمی ملاقاتیں ہوئی تھیں مگر اس اجلاس میں چند حتمی فیصلے کیے گئے اور عملی کام کا آغاز ہوا۔ باچا خان چونکہ خود بھی مسلح جدوجہد کے حق میں تھے اور اس سلسلے میں بنیادی کام بھی کر چکے تھے لہذا انہوں نے بونیر میں مرکز کے قیام اور بریلوی مجاہدین کی شمولیت پر مدلل اعتراضات کردیئے۔ باچا خان نے مخفی صاحب کو بونیر اسی سلسلے میں بھیجا تھا جہاں انہوں نے ان مجاہدین کے ساتھ کئی راتیں غاروں میں گزاری تھیں اور عسکری کاروائیوں کے ہر پہلو پر مفصل گفتگو کی تھی۔ مخفی صاحب نے واپسی پر باچا خان کو آگاہ کیا کہ بریلوی مجاہدین اب کسی کام کے نہیں رہے ہیں۔ باچا خان نے جب اجلاس میں بونیر کے مرکز اور بریلوی مجاہدین کے بارے میں تفصیل کے ساتھ اپنی معلومات اور نقطہ نظر پیش کیا تو تمام شرکاء نہ صرف یہ کہ ان سے متفق ہوگئے بلکہ آزاد پشتون قبائلی علاقے میں مرکز کے لیئے مناسب جگہ کی تلاش کی ذمہ داری بھی انہیں سونپ دی۔ طے ہوا کہ باچا خان مرکز کے لئے جگہ ڈھونڈتے اور مولانا عبیداللہ سندھی آکر اس کا حتمی انتخاب کرتے۔ باچا خان نے بغیر وقت ضائع کیے مرکز کے لئے جگہ کی تلاش کا آغاز کر دیا۔ مسلسل سفر میں رہتے ہوئے ان کی اگلی منزل چمرکنڈ تھی جس کے لیئے وہ نکل پڑے تھے ۔ اپنی خود نوشت سوانح عمری “میری زندگی اور جدوجہد ” کے صفحہ نمبر 58 اور 59 پر وہ چمرکنڈ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ
“چمرکنڈ بہت خوبصورت اور شاندار جگہ ہے۔پہاڑ کی چوٹی پر پاک و صاف پانی کا ایک چشمہ ہے۔سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں سرد۔چشمے کے اوپر چنار کا ایک درخت سایہ فگن ہے جسکے قریب “ھڈے ملا صاحب” کی مسجد ہے۔ مسجد کے قریب لنگر خانہ اور چند حجرے تھے، لیکن یہ حجرے خالی ہیں۔ کوئی بھی ان میں مقیم نہیں تھا۔ ایک طرف ایک گھر تھا جسکے قریب چند میوہ دار درخت تھے۔ گندم کا ایک کھیت تھا۔گھر کے آگے پھولوں کی چند کیاریاں بھی تھیں۔ ہماری قدموں کی چھاپ اور باتیں سن کر گھر کا مالک باہر نکلا۔ یہ ھڈے ملا کا شیخ ( مرید ) تھا۔ اکیلے یہاں رہتا تھا۔وہ ہمارے پاس آیا۔ علیک سلیک کے بعد مسجد میں بیٹھ گئے۔شیخ صاحب نے ہمیں ھڈے ملا صاحب کے زمانے کے سارے قصے سنائے کہ کس طرح انہوں نے یہ جگہ آباد کی تھی اور انکے زمانے میں یہاں کتنی گہما گہمی ہوا کرتی تھی۔ دور دور سے لوگ نماز جمعہ پڑھنے آتے تھے۔ ملا صاحب ایک غازی انسان تھے۔ شیخان (مرید) اپنے پیروں کے عجیب و غریب کرامات بیان کرتے ہیں۔ میں نے اسی طرح کے قصے اپنے علاقے میں پیر مانکی اور اخوند صاحب سوات ( عبدالغفور ) کے کرامات کے بارے میں سنے تھے۔ میرے والد جو اخوند صاحب سوات کے مرید تھے اس نے قصہ سنایا تھا کہ اخوند صاحب سوات کے ایک شیخ (مرید) نے کہا کہ ایک رات مجھے یہ تردد ہوا کہ لنگر خانے کا یہ خرچ کہاں سے پورا ہوتا ہے؟ صبح جب نیند سے بیدار ہوا تو اخوند صاحب سوات جاگ رہے تھے اور وضو کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ جب رفع حاجت کے لیے جانے لگے تو میں بھی ہمراہ ہوگیا۔ مجھے فرمایا کہ استنجا کرنے کے لیئے ڈھیلا دے دو۔ میں نے جب ڈھیلا اٹھایا تو وہ “سنگ پارس” تھا۔ دوسرا اٹھایا تو وہ بھی “سنگ پارس” تھا۔ تیسرا اٹھایا تو وہ بھی “سنگ پارس” تھا ۔ آخرکار سمجھ گیا کہ یہ رات کو میرے ذہن میں اٹھنے والے سوال کا جواب ہے تو اخوند صاحب کے پیر پڑ گیا اور معافی مانگی۔ میرے والد کا بھی پورا اعتقاد تھا کہ یہ بات سچ تھی اور مجھے بھی کہتا تھا کہ اولیاء کے کرامات برحق ہیں۔ اسی طرح پیران پیر صاحب کی کرامات کے بارے میں بھی سنا تھا کہ 12 سال کی ڈوبی ہوئی کشتی نکالی ہے جو نہ اللہ کے فرمان کے مطابق ہے اور نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال سے مطابقت رکھتی ہے اور مولوی حضرات نے بھی اتنی جرات نہ کی کہ لوگوں کو سمجھاتے کہ یہ بےبنیاد باتیں ہیں۔ مجھے اس قسم کے فرضی قصوں سے اتفاق نہ تھا۔ میں اپنے والد صاحب سے عرض کرتا کہ اگر سوات صاحب اتنے ہی صاحب کرامات ہیں تو پھر لوگوں سے ہدیے اور نظرانے کیوں قبول کرتے ہیں۔ ترنگزئی کے حاجی صاحب کے بارے میں بھی انکے مرید اسی قسم کی باتیں پھیلا کر سادہ پشتون قوم کو ورغلاتے اور لوٹتے تھے اور اپنی بزرگی ان سے منواتے تھے۔ میرے بارے میں بھی اس قسم کی باتیں ہونے لگیں۔ کوئی کہتا کہ اس کے ہاتھ غیر معمولی لمبے ہیں، یہ پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ کوئی کہتا کہ ایک کنویں کا پانی کھارا تھا جب اس نے اس میں ایک گڑھا پانی ڈالا تو کنویں کا پانی میٹھا ہوگیا۔ دور دور سے لوگ آتے تھے اور کہتے تھے اس پانی میں شفا ہے۔ اگر اس سے کپڑے دھوئیں تو صابن کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کوئی کہتا ایک دفعہ میں نے دس مہمانوں کے لیئے کھانا پکوایا مگر 100 مہمان آئے اور تمام نے کھا لیا پھر بھی کھانا بچا رہا۔اس طرح کے قسم قسم کے عجیب باتیں اور قصے بیان ہوتے رہتے ہیں۔ یہ تمام باتیں میرے متعلق لوگ کہتے تھے۔ میرے ساتھی خدائی خدمتگار تھے وہ شیخ نہ تھے۔ میں بھی ان سے کہتا تھا کہ میں نہ شیخ رکھتا ہوں اور نہ مرید۔ ہمارا ایک ہی مقصد ہے اور ہم اسی کے لیئے سب جدوجہد کرتے ہیں۔ شیخ صاحب نے ھڈے صاحب کی کرامات کی بہت سی باتیں بیان کیں مگر ہم ان باتوں کی وجہ سے ھڈے صاحب کی قدر نہیں کرتے تھے بلکہ وہ انگریزوں کے مخالف تھے اور ان سے جہاد کرتے رہے ہیں۔ اس لئے ہمارے دل میں ان کی قدر و منزلت تھی اور ہم انکی عظمت کے معترف تھے۔ ھڈے صاحب سوات صاحب کے مرید تھے ۔ افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمن خان نے ھڈے صاحب کو ملک بدر کرکے ھڈے سے چمرکنڈ بھگا دیا تھا مگر یہاں انگریزوں سے لڑنے کے لیے امیر عبدالرحمن خان بندوق اور کارتوس سے ھڈے صاحب کی خفیہ امداد کرتا تھا۔ شیخ صاحب دانا اور عقلمند آدمی تھے۔ اپنی گزر اوقات کے لیے انہوں نے شہد کی مکھیاں پال رکھی تھیں اور گھر کا تمام خرچ شہد سے چلاتے تھے۔ ہمارے لئے گندم کی روٹی اور شہد لائے۔جو مزہ اس کھانے میں تھا وہ اعلی دعوتوں میں میں نے نہیں دیکھا تھا۔ایک تو ہمیں بھوک لگی تھی، دوئم یہ کہ آبادی سے دور اس پہاڑی علاقے میں روٹی کی امید بہت کم تھی۔ یہ جگہ ہمیں بہت پسند آئی۔ ایک طرف یہ مہمند اور باجوڑ کے علاقے کی قریب تھی، دوسری طرف سرگان اور کونڑ سے بھی نزدیک تھی اور پھر جنگی نقطہ نظر سے انتہائی محفوظ جگہ تھی۔ اس وقت ہوائی جہاز نہ تھے مگر وہ جگہ بہت چھوٹی تھی اور ہمارے پلان پر عمل درآمد کرنے کے لیے ناکافی تھی۔”
باچا خان کی خود نوشت سوانح عمری ” میری زندگی اور جدوجہد ” سے منقول یہ چند پیراگرفس اپنے اندر کئی حقیقتوں کو چھپائے ہوئے ہیں۔ اب تک کی گفتگو سے یقینا قائرین اس نتیجے پر پہنچے ہونگے کہ باچا خان ایک حقیقی مسلمان اور باعمل عالم تھے۔ اسلام کا اہم جز جہاد انکے ایمان کا قوی اور غالب رنگ تھا۔ انہیں مجاہدین، غازیوں اور شہدا سے انتہائی عقیدت تھی اور انہیں سچے اور پارسا مسلمان سمجھتے تھے اور ان کی پیروی کو اپنا نصب العین سمجھتے تھے۔ وہ کسی بھی بزرگ اور پیر کے کرامات سے متاثر نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی ان کراماتی داستانوں کو انکے حوالے سے باعث تکریم سمجھتے تھے۔ ھڈے ملا صاحب کے شیخ نے انکے جتنے کرامات بھی بیان کیئے اس نے قطعاً بھی باچا خان کو متاثر نہیں کیا تھا بلکہ ھڈے ملا صاحب کے لیئے ان کے دل میں تمام تر احترام ان کی انگریز سامراج کے خلاف مجاہدانہ سرگرمیوں کے باعث تھی۔ عام علماء سے بھی ان کا یہی اختلاف تھا کہ وہ مسلمانوں کی اصلاح کرتے ہوئے انہیں پیروں فقیروں اور بزرگوں کے کراماتی قصوں سے نکال کر انہیں اسلام کے صحیح رخ سے آگاہ کریں۔ باچا خان جنگی حکمت عملیوں اور ضرورتوں سے بھی خوب آگاہ تھے اور اسی بنا پر چمرکنڈ اگر چہ موزون ترین مقام تھا مگر پھر بھی وہ انہوں نے فوجی کیمپ کے لئے غیر مناسب قرار دیا۔ چمرکنڈ کی آب و ہوا صحت افزا تھی اور جغرافیائی وقوع پذیر ہونا بھی عین جنگی مقاصد کے مطابق تھا اور وہاں پہلے سے بنائے ہوئے تعمیرات بھی موجود تھیں۔
اگرچہ ائیرفورس کا استعمال ابھی تک ہندوستان میں آزادی کی سرگرمیوں کے خلاف شروع نہیں ہوا تھا مگر تب بھی یہ جگہ پہاڑی ساخت کی وجہ سے ہوائی حملوں سے محفوظ تھی۔ چمرکنڈ مجاہدین کا مرکز رہا تھا اور اس مقام سے مجاہدین کی انسیت اور محبت تھی اور یہاں رسائی بھی انکے لیئے سہل تھی۔ ھڈے ملا صاحب کے اپنے پہلے سے موجود مجاہدین کے علاوہ نئے مجاہدین بھی یہاں انکے ساتھ شامل ہوئے تھے اور بریلوی مجاہدین بھی انکی قیادت میں انگریزوں کے خلاف لڑے تھے۔ ان تمام تر خوبیوں کے باوجود بھی باچا خان نے صرف ایک وجہ پر چمرکنڈ آزادی ہند کے نئے مرکز کے طور پر مسترد کیا کہ مرکز کی تنگی کی وجہ سے زیادہ تعداد میں مجاہدین کا قیام اور انکی تربیت یہاں ممکن نہیں تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ باچا خان زیادہ تعداد میں اور ہندوستان بھر سے آزادی کے متوالے مجاہدین کو اکھٹا کرکے عسکری تربیت دینا چاہتے تھے تاکہ ہندوستان کے کونے کونے میں انگریزوں کے ساتھ لڑا جاسکے۔
حیرت ہے کہ اس کے باوجود بھی باچا خان کو عدم تشدد کے فلسفے اور پالیسی کے حوالے سے پرستش کی حد تک سراہا جاتا ہے جبکہ حقیقت اسکے بالکل برعکس ہے۔ مجاہدین اور مسلح جدوجہد پر ان کے کامل ایمان نے انہیں مجاہدین کی محبت میں گرفتار اور سرشار کیا ہوا تھا۔ ایسی ہی محبت اور گہرے تعلق کے ثبوت میں باچا خان کی خود نوشت سوانح عمری “میری زندگی اور جدوجہد ” کے صفحہ نمبر 107 اور صفحہ نمبر 108 سے منتخب سطور پیش کیے جاتے ہیں جو انہوں نے”چمرکنڈ کے مجاہدین” کے عنوان سے تحریر کئے ہیں۔
” ڈاکٹر صاحب (باچا خان کے بڑے بھائی ڈاکٹر خان صاحب) اور چند دیگر لوگ میری ملاقات کے لئے آئے۔ وہ حکومت کا یہ پیغام لائے تھے کہ مدرسے چلاتا رہ مگر دورے نہ کر اور دوروں سے باز رہو تو حکومت تمہیں رہا کر دی گی۔ میں نے حکومت کی یہ شرط نہ مانی، چکیوں میں میرے ساتھ دوسرے قیدی بھی بند تھے۔ جن میں چمرکنڈ کے مجاہدین بھی تھے۔ میں جب کابل سے واپس ہوا تو میں نے انہیں بہت نصیحت کی کہ سرحد اور پنجاب نہ جائیں مگر انہوں نے میری بات نہ مانی اور اب انکا یہ حال تھا کہ قید وبند کی صعوبتیں برداشت کررہے تھے۔ میرے قید ہونے سے پہلے ان کو جیل میں مارا پیٹا جاتا تھا مگر جب سے میں قید ہوا انکا مارنا پیٹنا بند کر دیا گیا تھا۔ یہ مجاہدین جب بونیر میں رہتے تھے تو وہاں ان میں اکثریت بنگالیوں کی تھی۔ یہ بنگالی بہت شریف اور محبت کرنے والے لوگ تھے اور ہنسی خوشی وقت گزارتے تھے مگر ان میں جو پنجابی تھے وہ نفاق پرست لوگ تھے۔ جب یہ پنجابی ان میں شامل ہوئے تو انہوں نے متحارب گروہ بنائے اور آخر کار اپنے امیر نعمت اللہ کو قتل کردیا۔ بونیر کے باشندوں نے ان کو اپنے علاقے سے نکال دیا۔ وہ چمرکنڈ آگئے۔ ان کا ایک سرغنہ مولوی فضل الہی بڑا نفاق پرست اور خطرناک آدمی تھا۔ میں اس سے کابل میں ملا تھا اور میں نے اسے بہت نصیحت کی تھی مگر وہ اپنی فطرت سے مجبور تھا اور اسی دھڑے بندی میں اس نے ایک بہت اچھے مخلص اور نیک آدمی مولوی بشیر کو مروا دیا تھا۔ جب بعد میں پاکستان بنا تو مولوی فضل الہی پنجاب آگیا۔ میں ان دنوں جیل میں تھا۔ مولوی فضل الہی نے حکومت کے اکسانے اور حکومت کو خوش کرنے کے لیے میرے خلاف سخت پروپیگنڈا کیا اور میرے بارے میں بہت جھوٹ اور کذب بیانی سے کام لیا۔ پولیس نے اس کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ اس کا ایک ساتھی تھا جو قرآن مجید کا حافظ تھا وہ بھی پولیس کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنا ہوا تھا۔ جب پولیس مجاہدین میں سے کسی کام کے آدمی کو گرفتار کرنا چاہتی تو ان سے کہا جاتا۔ حافظ مجاہدین کے پاس جاتا، مطلوبہ آدمی کو چندے کے بہانے سرحد لے آتا اور پولیس کے حوالے کر دیتا۔ مجھے مجاہدین قیدیوں نے کہا تھا کہ اسے پھر ہمارے ایک بڑے کارکن کی گرفتاری کے لیئے بھیجا گیا ہے۔ اس لئے اس کارکن کو کسی طرح مطلع کرنا ضروری ہے۔ جیل میں ایک مہمند قیدی تھا جو چند دن بعد رہا ہونے والا تھا۔ مجاہدین نے مجھے کہا کہ اسکو ایک خط دیا جائے۔ اس کا گھر چمرکنڈ کے قریب تھا۔وہ رہائی کے بعد چمرکنڈ جاکر مجاہدین کو مولوی فضل الہی اور حافظ کی فریب کاری سے آگاہ کردے تاکہ بقیہ مجاہدین گرفتاری سے بچ جائے۔ میں نے پہلے ان کی بات سے اتفاق نہ کیا کیونکہ جیل سے خفیہ خطوط باہر بھیجنا جرم تھا مگر جب میں نے دیکھا کہ مولوی فضل الہی کی غداری مجاہدین کے لیے باعث مصیبت ہے تو میں نے خط لکھا اور مہمند کو رہائی سے ایک دن پہلے دے دیا۔ وہ جب رہا ہوا تو میرا خط خوف کے مارے ڈیوڑھی میں پھینک دیا جو اتفاقاً ہمارے گاؤں کے ایک نمبردار کے ہاتھ لگا اور اس نے مجھے لا کر دے دیا۔اگر یہ خط حکومت کو ملتا تو 10 سال مزید قید کی سزا مجھے ہوجاتی۔ہمارے ہزارے کا ایک ساتھی اسی طرح ایک خط لکھنے پر 10 سال مزید قید کی سزا بھگت رہا تھا۔”
بہت واضح طور پر سمجھا جاسکتا ہے کہ باچا خان کا تعلق نہ صرف یہ کہ جہادی راہنماوں سے تھا بلکہ عام مجاہدین سے بھی رابطے میں تھے۔ ان کے فلاح و بہبود اور خیر خیریت کے متمنی تھے اور اس حد تک ان کے ساتھ تعلق تھا کہ ان کو پندو نصیحت بھی کرتے تھے اور انکے بارے میں پریشان بھی رہتے تھے۔ صرف زبانی حد تک انکے ہمنوا اور خیرخواہ نہیں تھے بلکہ ان کی عملی مدد بھی کرتے تھے اور قید و بند کے دوران انہیں نہ صرف تشدد اور سختیوں سے بچاتے تھے بلکہ ان کو سہولتیں بھی بہم پہنچاتے تھے۔ یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ باچا خان کی ان سے کابل میں بھی ملاقاتیں ہوتی تھیں۔
چمرکنڈ کو بوجوہ بطور فوجی تربیت گاہ مسترد کرنے کے بعد برصغیر کی پرتشدد آزادی کے لئے باچا خان فوجی کیمپ کے قیام کے لیئے جگہ منتخب کرنے کی اپنی مشن کے اگلی منزل کی طرف چل پڑتے ہیں۔
(جاری)