GHAG

پی ٹی آئی کنفیوژن سے دوچار کیوں؟

24نومبر کی پی ٹی آئی کال اور ریاست کے ساتھ مبینہ یا مجوزہ مذاکرات سے متعلق پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور عمران خان کی فیملی کے درمیان نہ صرف ہم آہنگی کا شدید فقدان ہے بلکہ دن بدن اختلافات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ منگل کے روز اگر ایک طرف عمران خان کی اہلیہ سے کی سرگرمیوں اور ہدایات سے متعلق پشاور میں چہ میگوئیاں جاری رہیں تو دوسری طرف خان موصوف کی بہن علیمہ خان نے اپنے بھائی سے جیل میں ملاقات کرتے ہوئے مجوزہ مذاکرات کی نہ صرف نوید سنائی بلکہ یہ انکشاف بھی کرڈالا کہ عمران خان نے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر کو حکومت یا ریاست کے ساتھ 3 نکات یا شرائط پر مذاکرات کا اختیار دے دیا ہے اور اس مقصد کے لیے جمعرات تک کا ڈیڈ لائن بھی دیا ہے۔

عجیب وغریب صورتحال یہ دیکھنے کو ملی کہ علیمہ خان کی پریس ٹاک کے فوراً بعد مرکزی سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے پشاور میں میڈیا کو بتایا کہ احتجاج ہر صورت میں کیا جائے گا اور اس احتجاج کا بنیادی مقصد بانی چیئرمین کی رہائی اور “چوری شدہ” مینڈیٹ کی واپسی کو یقینی بنانا ہے ۔ علیمہ خان نے جو شرائط شیخ وقاص اکرم کی پریس ٹاک سے قبل بیان کی ہے حسب سابق ان میں خان صاحب کی رہائی کا نکتہ شامل نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پارٹی کو اپنی بنیادی شرائط اور مطالبات کے معاملے پر بھی ہم آہنگی کے فقدان کا سامنا ہے اور دوسروں کے علاوہ عمران خان کی اپنی اہلیہ اور بہن بھی  بیانیہ اور لائحہ عمل کے بنیادی معاملے پر ایک پیج پر نہیں ہیں۔ اسی طرح شیخ وقاص اکرم اور سلمان اکرم راجہ سمیت مرکزی قائدین کے درمیان بھی پالیسی میکنگ کے ایشوز پر کوئی ہم آہنگی اور حکمت عملی نظر نہیں آتی۔

اس تمام صورتحال نے پارٹی کے مقامی عہدیداران اور کارکنوں کو بھی مشکلات کے علاوہ کنفیوژن سے بھی دوچار کردیا ہے۔ بشریٰ بی بی نے منگل کے روز پشاور میں دیگر کے علاوہ مرکزی رہنما اسد قیصر سے بھی تبادلہ خیال کرتے ہوئے ان کو وزیر اعلیٰ کی موجودگی میں “ہدایات” جاری کیں اور اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ پارٹی کے اندرونی اختلافات کے باعث احتجاج تحریک سمیت متعدد دیگر معاملات بھی بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت پارٹی کے فیصلوں کا اختیار مرکزی یا صوبائی قائدین کی بجائے خیبرپختونخوا میں بشریٰ بی بی اور پنجاب میں علیمہ خان کے ہاتھوں میں ہیں تو غلط نہیں ہوگا اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ پارٹی کو شدید نوعیت کے تنظیمی اور خاندانی اختلافات کا سامنا ہے ۔ جہاں تک مجوزہ مذاکرات کے مستقبل کا سوال ہے ایک بات بلکل واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ تو فی الحال براہ راست اس پارٹی کے ساتھ کسی مذاکراتی عمل کے موڈ میں نہیں ہے اور اگر مذاکرات ہوتے ہیں تو وہ وفاقی حکومت کے ساتھ ہوں گے۔ وہ وفاقی حکومت جس کو یہ پارٹی فارم 47 والی ناجائز حکومت کا نام دیتی آرہی ہے ۔ اس تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی بری طرح پھنس گئی ہے اور اس پارٹی کا مستقبل ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts