مقبول عام تبصروں، تجزیوں اور دعوؤں کے برعکس تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی 24 نومبر کے بعد مزید کمزور ہوگئی ہے اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ اب اس پارٹی کا بیانیہ حسب توقع ان “لاشوں” کی سیاست تک محدود ہوکر رہ گیا ہے جو کہ اس پارٹی کی دیرینہ خواہش تھی کہ گر جائیں مگر تاحال دو تین لاشوں سے زیادہ عملاً ایسا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا جس کی بنیاد پر یہ یقین کے ساتھ یہ دعویٰ کیا جائے کہ فلاں جگہ کا فلاں شخص فورسز کی کارروائی کے نتیجے میں جاں بحق ہوگیا ہے۔ اگر یہ تین لاشیں واقعتاً سامنے آئی ہیں تو پی ٹی آئی کو فوری طور پر عدلیہ سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے نا کہ ان بیانات پر انحصار جو کہ تاحال محض سوشل میڈیا کے دعووں تک محدود ہے۔ پی ٹی آئی کے اندر لاشوں کی سیاست کے اس کھیل میں خود کتنی سنجیدگی یا تیاری نظر آتی ہے اس کا اندازہ بعض اہم لیڈروں کے متضاد بیانات یا دعوؤں سے لگایا جاسکتا ہے۔
لطیف کھوسہ کے مطابق ” شہداء” کی تعداد 100 سے 150 کے درمیان ہے ۔
رؤف حسن نے کہا کہ 15 سے 18 کارکن شہید ہوگئے ہیں ۔
وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے بقول شہداء کی تعداد سینکڑوں میں ہیں۔
شیر افضل مروت نے کہا کہ 8۔10 افراد کی شہادتوں کی اطلاعات ہیں مگر 3 کنفرم ہیں۔
وزیرداخلہ کے علاوہ رانا ثنا اللہ اور احسن اقبال نے چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس ضمن میں کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو وہ پیش کریں تاکہ تحقیقات کا آغاز کیا جائے۔
اکثریتی حلقوں کا ماننا ہے کہ فائرنگ ہوئی ہے اور لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں مگر ہلاکتوں کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا ہے اس لیے ایک کنفیوژن موجود ہے تاہم یہ ماننے کو کوئی تیار نہیں ہے کہ اس جدید دور میں “لاشوں” کو چھپانا ممکن ہے ۔ وفاقی وزیر احسن اقبال نے ایک انٹرویو میں واضح کردیا ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کے پاس نہ صرف یہ کہ ہتھیار اور دیگر اوزار تھے بلکہ ڈی چوک تک پہنچنے کی پلاننگ میں پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے کا اقدام شامل تھا جس سے بچنے کے لیے ریاست کو ایکشن لینا پڑا ۔ ان کے مطابق دھرنوں وغیرہ کا زمانہ گزر چکا ہے اب کسی کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کے قائدین نہ صرف یہ کہ اپنے انٹرویوز اور بیانات کے ذریعے اپنی غلط پلاننگ اور کوارڈینیشن کے فقدان کے باعث ناکامی کا اعتراف کررہے ہیں بلکہ پارٹی کے اندر شدید نوعیت کے اختلافات نے اس ” مقبول” جماعت کے مستقبل کو بھی سوالیہ نشان بنادیا ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اختلافات اب ذاتیات کی شکل میں ایک دوسرے کو انتہائی نامناسب القابات سے “نوازنے ” تک پہنچ گئے ہیں اور گزشتہ روز سیاسی اور کور کمیٹی کے زوم میٹنگ کے دوران بشریٰ بی بی اور مرکزی سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے ایک دوسرے پر بدترین قسم کے الزامات لگائے جس کے ردعمل میں سلمان اکرم راجہ نے استعفیٰ دینے آپشن استعمال کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ ہم ایک خاندانی جھگڑے اور مشکوک پلاننگ کا حصہ نہیں بن سکتے۔ بعض دیگر لیڈروں کے مستعفی ہونے کی بھی اطلاعات زیر گردش ہیں اور اکثر سنجیدہ رہنماء اس تمام صورتحال کی ذمہ داری بشریٰ بی بی کے رویے اور فیصلوں پر ڈال رہے ہیں۔
متعدد دیگر کے علاوہ رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے بھی ایک انٹرویو میں کہا کہ علی امین گنڈاپور اور ان سمیت متعدد اہم رہنما ڈی چوک جانے کے حق میں نہیں تھے مگر بشریٰ بی بی نے کارکنوں کو وہاں پہنچے کی ہدایت کردی جس کے نتیجے میں سب کو حکومتی ایکشن کا سامنا کرنا پڑا اور علی امین گنڈاپور نے صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے بشریٰ بی بی کو محفوظ رکھنے کے لیے قدم اٹھایا جو کہ ناگزیر ہوگیا تھا ۔
اس تمام بلیم گیم میں ایک بات سب اہم لیڈروں سے مشترکہ طور پر سنی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ سینئر قیادت یا تو غائب تھی یا بشریٰ بی بی سے اختلاف کے باعث فیصلہ سازی کے عمل سے لاتعلق تھی۔ ایک سنگین نوعیت کا الزام اگر ایک طرف بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان نے ایکس کے ایک پوسٹ کے ذریعے لگایا تو بشریٰ بی بی کی بہن مریم وٹو نے متعدد ٹی وی انٹرویوز میں یہاں تک کہا کہ علی امین گنڈاپور اور ان کی ٹیم نے بشریٰ بی بی کو یرغمال بنادیا تھا اور یہ کہ ان کو وہ زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔
اس ضمن میں گزشتہ رات خیبرپختونخوا اسمبلی کا ایک غیر ضروری اجلاس بلایا گیا جس میں تین روزہ سوگ کے رسمی اعلان کے بغیر کچھ نہیں کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ اور بشریٰ بی بی کا موقف کیا ہے اور پارٹی میں ان کے علاوہ دوسرے لیڈروں کا اسٹیک مستقبل میں کس نوعیت کا ہوگا اس بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا تاہم ایک بات بلکل واضح ہے اور وہ یہ کہ “چونکہ چنانچہ اور اگر مگر” کے تکرار سے قطع نظر پی ٹی آئی 24 نومبر کی پوزیشن سے بہت پیچھے چلی گئی ہے اور لگ یہ رہا ہے کہ اگر مزاحمت کی روایتی پالیسی کو مزید آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی تو یہ پارٹی مکمل طور پر دم توڑ جائے گی اور اگر ایسا ہوا تو اس کی ذمہ داری اس کے بانی اور قریبی رشتے داروں پر عائد ہوگی۔