GHAG

دہشت گردی کے خلاف جنگ اور خیبرپختونخوا حکومت کی استعداد

دہشتگردی کے خلاف جنگ اور سی ٹی ڈی کا استعداد

خیبرپختونخوا میں سی ٹی ڈی کی استعداد کا جائزہ اگر لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ فورس تنہا خیبر پختونخوا کی مشکل لڑائی لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟

دیکھا جائے تو صوبہ خیبرپختونخوا گزشتہ دو دہائیوں سے دہشتگردی  کا شکار رہا ہے ہے اور یہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے اس  جنگ میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اس عرصے میں پاک فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں نے بے شمار کامیابیاں حاصل کیں، لیکن مقامی قانون نافذ کرنے والے ادارے، خصوصاً محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) اب بھی وسائل کی کمی اور حکومتی توجہ کا طالب ہے۔ دسمبر 2022 میں بنوں سی ٹی ڈی تھانے کے اوپر حملے نے ان کمزوریوں کو بے نقاب کیا جہاں بنیادی انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی نے سنگین سوالات کو جنم دیا۔

وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز کی فراہمی

وفاقی حکومت نے 2010 سے 2024 تک خیبرپختونخوا کو دہشتگردی کے خلاف جنگ کے لیے تقریباً 500 ارب روپے فراہم کیے۔ صرف مالی سال 2023-24 کے پہلے 9 مہینوں میں صوبے کو 56 ارب روپے دیے گئے مگر یہ فنڈز سی ٹی ڈی کی استعداد کاری پر خرچ نہیں ہوئے۔

خیبرپختونخوا سی ٹی ڈی اہلکاروں کی تعداد

اس کے علاوہ خیبر پختونخوا سی ٹی ڈی کی نفری 2022 میں 2,135 تھی۔ بنوں حملے کے بعد سے ہونے والی تنقید کے پیشِ نظر تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق خیبرپختونخوا سی ٹی ڈی کے پاس عملے کی تعداد 4430 ہے جس میں کک، کلرک اور ڈرائیور بھی شامل ہیں۔یہ تعداد کسی بھی لحاظ سے صوبے میں موجود دہشتگردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہے۔

خیبرپختونخوا سی ٹی ڈی کے مسائل

خیبر پختونخوا کے محکمہ انسداد دہشتگردی سی ٹی ڈی کو مؤثر طور پر فعال بنانے میں کئی مسائل درپیش ہیں جن میں ایک بڑا مسئلہ پی ایس پی  افسران کو صوبائی حکومت کی جانب سے سی ٹی ڈی میں تعینات نہ کرنا ہے۔ 2022 تک  محکمے میں صرف ایک سینئر افسر تھا جو قائم مقام ڈی آئی جی کے طور پر خدمات انجام دے رہا ہے، جبکہ پنجاب CTD میں تقریباً 18 سینئر افسران اور دو ڈی آئی  جیز تعینات ہیں۔ فوج کی جانب سے بار بار کہنے کے بعد 2023 میں پہلی دفعہ خیبر پختونخوا سی ٹی ڈی میں آٹھ سپرٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پیز) تعینات کرنے کی سفارش کی گئی جو ابھی بھی صوبے کو درپیش چیلنجوں کے حساب سے کم ہے۔

محکمہ انسداد دہشت گردی کی تربیت

خیبر پختونخوا کے سی ٹی ڈی ڈیپارٹمنٹ کو جدید انسداد دہشتگردی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔گزشتہ دو سالوں کے دوران CTD خیبر پختونخوا کے لیے کوئی تربیتی پروگرام منعقد نہیں ہوا اور نہ ہی اس مقصد کے لیے کوئی گرانٹ جاری کی گئی۔مزید برآں، ’ریوارڈ فنڈ‘ کے لیے خیبرپختونخوا سی ٹی ڈی کے پاس صرف 2.5 کروڑ روپے موجود ہیں، جبکہ پنجاب سی ٹی ڈی کے پاس یہ رقم 27.6 کروڑ روپے ہے۔ اپنے ڈیٹا فرانزک کے لیے بھی خیبرپختونخوا کی سی ٹی ڈی پنجاب پر انحصار کررہی ہے۔

سی ٹی ڈی کی تفتیش میں کمزوریاں اور وسائل

اعدادوشمار کے مطابق دہشتگردی کے سب سے زیادہ مقدمات بلوچستان (34 فیصد) اور خیبرپختونخوا (32فیصد) میں ہیں لیکن ان مقدمات کے فیصلے اور سزاؤں کا تناسب انتہائی کم ہے۔ اس کی ایک وجہ سی ٹی ڈی کی کمزور تفتیش بھی ہے۔

پاک فوج نے خیبر پختونخوا میں سی ٹی ڈی کے لیے جدید طرز کے ہیڈکوارٹر سمیت دیگر سہولیات فراہم کیں لیکن ناکافی وسائل کی وجہ سے یہ اقدامات مطلوبہ نتائج نہیں دے سکے۔

 پنجاب اور سندھ کی سی ٹی ڈی کے مقابلے میں خیبرپختونخوا سی ٹی ڈی مالی اور انتظامی طور پر بہت پیچھے ہے۔ شہداء پیکج دیگر صوبوں سے 150 فیصد کم ہونے کے باعث ملازمین کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور کرپشن کے مسائل ادارے کی کارکردگی پر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔

محکمہ انسداد دہشت گردی اور خیبرپختونخوا حکومت

صوبائی حکومت کی سی ٹی ڈی میں عدم دلچسپی اور کرپشن کا یہ عالم ہے کہ سی ٹی ڈی میں بھرتی کے لئے اشتہار دیا گیا – ہزاروں لوگوں نے فیس جمع کروا کے درخواستیں جمع کروائیں جس کی مد  میں دو کروڑ روپے جمع ہوئے اور بعد میں بھرتیاں منسوخ کر دی گئیں۔ بھرتیوں کی اس طرح منسوخی بدانتظامی اور کرپشن  کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔

دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے صوبے میں سی ٹی ڈی کی موجودہ کمزوریاں تشویشناک ہیں۔ سیکیورٹی فورسز دہشتگردوں کے خلاف مؤثر کارروائیاں کرتی ہیں، لیکن سی ٹی ڈی کی کمزوریوں کی وجہ سے دہشتگردوں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع ملتا ہے۔

قانون نافذ کرنا اور امن و امان برقرار رکھنا بنیادی طور پر مقامی انتظامیہ اور پولیس کی ذمہ داری ہے، مگر خیبرپختونخوا کی حکومت اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔

اس وقت فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ خیبرپختونخوا سی ٹی ڈی کی فعالیت کو بڑھایا جاسکے۔ جدید ٹیکنالوجی، بہتر مالی وسائل اور عملے کی پیشہ ورانہ تربیت کے ذریعے ہی اس خطرے کا سدباب ممکن ہے۔ اگر ان پہلوؤں کو نظرانداز کیا گیا تو دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے خطرات پر قابو پانا مشکل ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts