GHAG

مدارس کی رجسٹریشن اور مین سٹریمنگ کی مخالفت کیوں؟

ملک میں ایک بار پھر دینی مدارس کی رجسٹریشن کی بحث چل نکلی ہے اور جے یو آئی ف سمیت بعض وہ پارٹیاں مدارس کی اصلاحات سے متعلق مجوزہ حکومتی یا ریاستی تجاویز کی مخالفت کررہی ہیں جن کے ساتھ مختلف مسالک کے مدارس منسلک ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اور بعض دیگر رہنماؤں کی یہ مسلسل کوشش بلکہ پالیسی رہی ہے کہ مدارس کی نہ تو پراپر رجسٹریشن ہو نہ ان کا کوئی آڈٹ سسٹم ہو اور نا ہی مدارس میں عصری یا جدید علوم پڑھائے جائیں۔ اس مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ 80 فیصد مدارس مختلف مذہبی جماعتوں کے ساتھ نظریاتی طور پر منسلک یا وابستہ ہیں۔ یہ مدراس جہاں ایک طرف ان مذہبی پارٹیوں کے مراکز سمجھے جاتے ہیں بلکہ ان کی فنڈنگ کا بھی ذریعہ ہیں۔

ماضی میں بعض اسلامی ممالک نے سرد جنگ کے مختلف ادوار کے دوران پاکستان اور افغانستان میں مدارس اور متعدد اسلامی جماعتوں ، گروپوں پر بہت بڑی سرمایہ کاری کی تاکہ اس اہم خطے میں اپنے اثر رسوخ کو بڑھایا جائے۔ ان ممالک میں سعودی عرب، ایران، یو اے ای، قطر، ترکی، لیبیا، شام اور عراق شامل ہیں۔ پاکستان جب آزاد ہوا تو ملک کے دونوں حصوں یعنی مغربی اور مشرقی پاکستان میں مدارس کی کل تعداد تقریباً 5000 تھی۔ سال 1978 کو یہ تعداد 9000 تک پہنچ گئی تاہم ایران اور افغانستان میں انیوالی تبدیلیوں کے فوراً بعد ان دو ممالک میں مدارس کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہونے لگا اور یہ تعداد 1984 میں 20 ہزار تک پہنچ گئی۔ اسی پس منظر میں اکثر مدارس میں جہادی عناصر پیدا کرتے ہوئے طلباء کو افغانستان اور کشمیر وغیرہ میں جہاد کرنے بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کے نتیجے میں یہ مدارس بعض مذہبی جماعتوں اور متعدد اہم ممالک کے لئے نہ صرف یہ کہ بہت اہمیت اختیار کرگئے بلکہ ان مدارس نے ایک باقاعدہ کاروبار کی شکل اختیار کرلی۔  سال 2010 کے دوران کیے گئے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ مدارس کی تعداد 60 ہزار سے زائد بتائی گئی۔

مدارس کی رجسٹریشن کا ملک کے اندر کوئی موثر نظام موجود نہیں ہے جس کے باعث ان کے نصاب، آڈٹ اور دیگر سرگرمیوں کی تفصیلات سامنے نہیں آسکتی۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد جب نیشنل ایکشن پلان کے فیصلوں کے مطابق مدارس کی رجسٹریشن اور اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا گیا تو مذہبی جماعتوں نے ریاستی رابطہ کاری اور مشاورت کے باوجود مدارس کی رجسٹریشن کی مخالفت شروع کردی اور اہم قائدین میں مولانا فضل الرحمان صاحب اس مخالفت کے سب سے اہم کردار رہے کیونکہ پاکستان کے اکثر مدارس مسلکی طور پر دیوبندی ہیں اور مولانا فضل الرحمان اس طبقہ فکر کے سب سے بڑے مدعی سمجھے جاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت کے دوران طے پایا کہ مدارس کے معاملات دیکھنے کی ذمہ داری وفاقی وزارتِ تعلیم کے ماتحت کیے جائیں اور اس پر کافی حد تک اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش بھی کی گئی مگر اصلاحات کا عمل آگے نہ بڑھ سکا۔ اب ایک بار پھر ریاست پاکستان پر دباؤ بڑھنے لگا ہے کہ شدت پسندی کے معاملات کو ڈیل کرنے کے لیے مدارس کی پراپر رجسٹریشن اور اصلاحات کو یقینی بنایا جائے مگر مولانا فضل الرحمان صاحب اور متعدد دیگر پھر سے مخالفت کرنے لگے ہیں۔26ویں آئینی ترمیم کے پس منظر میں اس معاملے کو سلجھانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس ضمن میں وزیر اعظم کی سطح پر مولانا اور دیگر کو اعتماد میں لیا جارہا ہے مگر بات بنتی دکھائی نہیں دیتی جس کے منفی اثرات مرتب ہونے کے خدشات بڑھتے جارہے ہیں کیونکہ بعض عالمی ادارے خصوصاً ایف اے ٹی ایف پھر سے دباؤ ڈالنے لگے ہیں اور ریاستی اداروں کے پاس بعض شرائط پوری کیے بغیر دوسرا کوئی راستہ باقی نہیں رہا ہے اس لئے مولانا فضل الرحمان سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو جاری صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ریاستی اداروں کے ساتھ تعاون کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ مشاورت اور قومی اتفاق رائے سے مدارس کی مین سٹریمنگ ہوسکے اور اس کی رجسٹریشن کا عمل جدید سسٹم کے ذریعے ممکن بنایا جاسکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts