16-12-2024
16 دسمبر 2014 پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے جس کے زخم 10 سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود نہ صرف یہ کہ تازہ ہیں بلکہ فورسز اور عوام کی بے پناہ قربانیوں کے باوجود دہشتگردی کے خلاف جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی اور پاکستان بالخصوص خیبرپختونخوا تاحال اس جنگ کی لپیٹ میں ہیں۔ 16دسمبر 2014 کی صبح نصف درجن کے لگ بھگ سفاک دہشت گردوں کے ایک گروپ نے آرمی پبلک اسکول پشاور پر جدید ہتھیاروں سے لیس ہوکر حملہ کیا جس کے نتیجے میں منٹوں کے اندر پرنسپل اور سٹاف کے تقریباً 16 ارکان سمیت 144 بچوں کو بے دردی سے شہید کردیا گیا جس نے پاکستان سمیت پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا اور پوری دنیا میں ان معصوم شہداء کی یاد میں ماتمی جلوسوں اور ریلیوں کا انعقاد کیا گیا۔ پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے ایک کمانڈو ایکشن کے ذریعے تمام دہشت گردوں کو ہلاک کردیا جبکہ اس حملے کے ماسٹر مائنڈ عمر نرے کو بھی بعد میں متعدد دیگر کے ہمراہ ہلاک کیا گیا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے ذریعے اس خوفناک حملے میں ملوث تقریباً 5 دہشت گردوں کو سزائے موت اور عمر قید کی سزائیں دی گئیں جبکہ اس کے ردعمل میں جہاں ایک طرف اسی روز پشاور میں وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت ہونے والے ایک ہنگامی اجلاس میں قومی اتفاق رائے سے تمام قومی لیڈروں کی موجودگی میں نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی گئی بلکہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے پشاور ہی سے افغانستان کے دارالحکومت کابل جاکر افغان حکومت کو پاکستان کی تشویش اور غصے سے آگاہ کرتے ہوئے ان پر واضح کیا کہ پاکستان اس حملے کے ذمہ داران اور منصوبہ سازوں کو کسی قیمت پر معاف نہیں کرے گا۔
اس حملے کی تمام تر پلاننگ افغانستان میں موجود کالعدم ٹی ٹی پی کے اس ہارڈ کور گروپ نے کی تھی جس کے ارکان داعش سے متاثر تھے اور عمر نرے نامی ایک کمانڈر ان کی قیادت کررہا تھا جس کو جولائی 2016 کو ایک کارروائی کے نتیجے میں ہلاک کردیا گیا۔
سانحہ اے پی ایس کے دوران دو خواتین سمیت پاکستان فوج کے تقریباً دو درجن افسران اور جوانوں کے بچے بھی شہید ہوئے تاہم صوبے کے حکمرانوں (پی ٹی آئی) سمیت بعض دیگر وقتاً فوقتاً پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے بعض ریاستی اداروں کے ملوث ہونے کا گمراہ کن پروپیگنڈہ کرتے رہے حالانکہ اس واقعے کے بعد ذمہ داران کے تعین کے علاوہ سیکورٹی لیپس جیسے معاملات کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد انکوائری کمیشن کے قیام کا اقدام اٹھایا گیا جس میں متعدد دیگر کے علاوہ اس وقت کے کور کمانڈر پشاور کا بیان اور موقف بھی ریکارڈ کیا گیا اور بعض افسران کے خلاف کارروائیاں بھی کی گئیں۔
سانحہ اے پی ایس کے متاثرین جن میں بچ جانے والے بچے اور شہداء، زخمیوں کے والدین شامل تھے، کی ذہنی بحالی کے لیے ایک بڑے پیکج کا اعلان کیا گیا جس کے تحت نہ صرف یہ کہ شہداء اور زخمیوں کے والدین کو کروڑوں روپے ادا کیے گئے بلکہ والدین سمیت بچ جانے والے بچوں کو مختلف ممالک کے دورے بھی کرایے گئے اور متعدد زخمیوں کا پاک فوج کی مدد سے بیرون ملک علاج بھی کروایا گیا۔ شہید بچوں اور ان کی اساتذہ کے ناموں پر پشاور اور بعض دیگر شہروں میں سرکاری اسکولوں کے نام رکھے گئے تاکہ ان کی قربانیوں کو یاد رکھا جائے۔
اے پی ایس حملے کے فوراً بعد دہشت گردی کے خاتمے کے لئے نیشنل ایکشن پلان کے تحت جہاں ایک طرف “آپریشن ضرب عضب” کا آغاز کرتے ہوئے تقریباً 5000 دہشت گردوں کو ہلاک اور 12000 کو گرفتار کرلیا گیا وہاں دوسری جانب تقریباً 50 ہارڈ کور کمانڈرز اور حملہ آوروں کو موت کی سزائیں دی گئیں۔ اس کے علاوہ افغانستان کے ساتھ بارڈر پر کراس بارڈر ٹیررازم پر قابو پانے کے لیے باڑ لگانے کے منصوبے کا آغاز کیا گیا اور سرحد پر تقریباً 300 چوکیاں قائم کی گئیں۔
سال 2014 کے دوران خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی تاہم جس وقت یہ سانحہ وقوع پذیر ہوا اس وقت پارٹی کے چیئرمین عمران خان وفاقی حکومت کے خلاف کئی مہینوں سے اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے تھے اور پرویز خٹک کی زیر قیادت صوبائی حکومت اس دھرنے کی عین اسی طرح سہولت کاری کررہی تھی جس طرح آج علی امین گنڈاپور کی قیادت میں صوبائی حکومت کرتی رہی ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ اس پارٹی نے بعد میں جہاں ایک طرف سانحہ اے پی ایس کی ذمہ دار ٹی ٹی پی کو عمران خان کے دور حکومت میں افغانستان سے واپس لانے کا اقدام اٹھایا اور مذاکرات کے نام پر جیلوں میں بند درجنوں دہشت گردوں کو رہا کردیا وہاں اس پارٹی کی موجودہ صوبائی حکومت اس وقت بھی کالعدم ٹی ٹی پی (فتنہ الخوارج) کی غیر اعلانیہ سرپرستی میں مصروف عمل ہے۔ اسی تسلسل میں جہاں ٹی ٹی پی کے درجنوں افراد نے 9 مئی کے واقعات میں براہ راست حصہ لیا اور 2018 کی طرح 2024 کے الیکشن کے دوران پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا وہاں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد بھی ریاست کے خلاف اس پارٹی کی جارحانہ احتجاجی کوششوں میں ہمسفر رہی۔
حال ہی میں اسی پارٹی کے اہم ذمہ داریوں پر فائز ایک شخص نے اعتراف کیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے پارٹی کے اہم ذمہ داران کو خود یہ بتایا تھا کہ الیکشن میں ٹی ٹی پی نہ صرف مخالف پارٹیوں پر حملے کرکے پی ٹی آئی کی کامیابی کا راستہ ہموار کرے گی بلکہ ہر ممکن تعاون بھی فراہم کرے گی۔ ان واقعات اور ثبوتوں سے بہت آسانی کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جس دہشت گرد گروپ نے آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں سمیت ہزاروں پاکستانیوں کا خون بہایا اس قوت کے ساتھ مذکورہ پارٹی اور اس کی صوبائی حکومت کی کتنی قربت اور سہولت کاری رہی ہے۔ یہی وہ بنیادی فیکٹر ہے جس کے باعث خیبرپختونخوا سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو رہا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ رواں سال (2024) کے دوران خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کے 636 واقعات ہوئے جس کے نتیجے میں500 سے زائد سیکورٹی فورسز اور عام شہریوں کی شہادتیں ہوئیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت دہشت گردوں سے نفرت کرتی ہے اور وہ سانحہ اے پی ایس سمیت اس نوعیت کی دیگر بے شمار واقعات کو نہ بھولے ہیں نا بھولیں گے اس تلخ حقیقت کو پھر بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پی ٹی آئی اور اس کی صوبائی حکومت کے ہوتے ہوئے دہشتگردی کے خاتمے کو تمام تر کوششوں اور قربانیوں کے باوجود کم از کم خیبر پختونخوا سے یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں وزارت داخلہ کی جانب سے جو تفصیلات فراہم کی گئیں ان کے مطابق رواں سال پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشتگردی کے 1556 واقعات ہوئے۔ ان حملوں کے نتیجے میں سال 2024 کے دوران (11 ماہ) 924 سویلین اور فورسز کے جوان شہید ہوگئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق تقریباً 63 فیصد حملے فورسز پر کیے گئے ہیں جو کہ اس جانب اشارہ ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان کے خلاف کس نوعیت کی جنگ میں مصروف ہے تاہم اس تمام منظر نامے کا ایک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ خود کو ملک کی مقبول پارٹی قرار دینے والی پی ٹی آئی خیبرپختونخوا جیسے حساس صوبے میں نہ صرف دہشت گردوں کی معاونت کرتی آرہی ہے بلکہ یہ فائنل کال اور سول نافرمانی جیسی سرگرمیوں کے علاوہ ریاست کے خلاف بدترین قسم کی “پروپیگنڈا گردی” میں بھی مصروف عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض سیاسی قوتیں پی ٹی آئی کے خلاف مزید سخت اقدامات کے علاوہ پابندی لگانے کا مطالبہ بھی کرتی آرہی ہیں اور عوام بھی پی ٹی آئی کی مزاحمتی سیاست سے تنگ آگئے ہیں۔
اگر اہل سیاست اور اہل ریاست واقعتاً پاکستان میں پائیدار امن اور استحکام کے خواہشمند ہیں تو اس کے لیے لازمی ہے کہ ان تمام قوتوں یا گروپوں سے چھٹکارا دلایا جائے جو کہ ملک میں دہشتگردی اور شرپسندی کو فروغ دینے میں مصروف عمل ہیں تاکہ آرمی پبلک اسکول کے معصوم شہداء سمیت ہزاروں شہیدوں کی روحوں کو سکون مل جائے اور ہمارے بچے پھر سے ایسے کسی سانحے سے دوچار نہ ہو۔
(16 دسمبر 2024ء)