GHAG

کرم معاہدے میں اتنی تاخیر کیوں؟

عقیل یوسفزئی

کئی مہینوں کی بربادی اور بے پناہ جانی و مالی نقصان سمیت دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کے بعد “آخر کار” کرم خیبرپختونخوا میں ایک امن معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ معاہدے پر انتظامیہ کی موجودگی میں دونوں متحارب گروپوں یا فریقین کے 45، 45 افراد نے دستخط کیے۔ کمشنر کوہاٹ نے اس موقع پر کہا کہ فریقین بنکرز وغیرہ ختم کرکے اسلحہ جمع کرائیں گے اور حکومت ایک طریقہ کار کے مطابق ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگا کر تلافی کرے گی۔

مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر سیف نے اس معاہدے کو کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فوری طور پر سیزفائر اور بنکرز خالی کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے اور مزید مسائل کے حل کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق کوشش کی جائے گی کہ آئندہ تمام تنازعات باہمی مشاورت سے حل ہو۔

مختلف اہل تشیع رہنماؤں نے اس معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے تاہم یہ بات قابل افسوس ہے کہ سیز فائر میں اتنی تاخیر ہوئی جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ بچوں سمیت درجنوں جانیں ضائع ہوئیں بلکہ منگل کے روز بھی ایک نوجوان کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا۔ بعض ایسی وحشت ناک واقعات سامنے آئے جن کے باعث پاکستان بلخصوص خیبرپختونخوا کا امیج بری طرح خراب بلکہ مسخ ہوا۔ ایک جنگ زدہ صوبے کی حکومت جہاں بدامنی میں کمی لانے یا آمن کے قیام میں ناکام رہی وہاں اس صوبائی حکومت نے محض ایک محدود ضلع میں جاری خانہ جنگی اور کشیدگی کے خاتمے میں بھی کئی مہینے لگا دیے جس کے باعث اکیسویں صدی میں عام لوگ خوراک اور ادویات تک کو ترستے رہے اور درجنوں بچے ادویات کی کمی کے باعث زندگی سے جان کھو بیٹھے۔

اگر مگر اور چونکہ چنانچہ سے قطع نظر ان تمام “واقعات اور صدمات” کی ذمہ داری متعلقہ متحارب گروپوں کے علاوہ صوبائی حکومت کی نااہلی اور لاتعلقی ہی پر عائد ہوتی ہے جبکہ وہ لوگ بھی ان نتائج اور نقصانات کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے آگ پر تیل ڈالنے کا “فریضہ” کرم کے مخصوص نازک صورتحال کے باوجود پورے “اہتمام” کے ساتھ سرانجام دیتے ہوئے بہت منفی کردار ادا کیا۔ ان سب عناصر کا کسی مصلحت کے بغیر محاسبہ ہونا چاہیے کیونکہ اس قسم کی صورتحال کوئی پہلی بار سامنے نہیں آئی ہے اور اگر ریاستی اداروں نے اپنی رٹ کو بحال کرنے کا کوئی ٹھوس لائحہ عمل اختیار نہیں کیا تو مستقبل میں بھی ایسے حالات پیدا ہوتے رہیں گے اور جنگ زدہ صوبے کے ایسے حالات سے دوسری امن دشمن قوتیں فائدہ اٹھاتی رہیں گی۔ وقت آگیا ہے کہ صوبائی حکومت امن کے قیام پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے جھتوں کی بدمعاشی سے عوام کو تحفظ فراہم کریں اور ضم اضلاع کے مسائل کے حل پر بھرپور توجہ دی جائے۔

یہ بات قابل افسوس ہے کہ اسی صوبائی حکومت نے گزشتہ روز اپنے مسائل کے حق کے لیے پرامن مظاہرہ کرنے والے بلدیاتی نمائندوں پر تشدد کیا اور پشاور میدان جنگ کا نقشہ پیش کرتا رہا۔ ایسے معاملات بھی بعض اہم فیصلوں کے متقاضی ہیں کیونکہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے صوبائی حکومت نے منتخب عوامی نمائندوں اور اداروں کو بھی بے اختیار اور بے بس کرکے رکھ دیا ہے۔

(2 جنوری 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts