GHAG

حکومتی رٹ کہاں ہے؟

ایڈیٹوریل

یہ بات قابل افسوس ہی نہیں بلکہ باعث تشویش ہے کہ 21ویں صدی کے پاکستانی ریاست سے خیبرپختونخوا کے ایک ضلع یعنی کرم کا مسئلہ حل نہیں ہو پارہا۔ شاید ہمارے حکمرانوں کو اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ اس معاملے نے پاکستان کے ریاستی نظام پر کتنے سوالات کھڑے کردیے ہیں اور عالمی سطح پر ملک کی کتنی بدنامی ہورہی ہے۔ اگر ابتداء میں لاتعلقی اور کوتاہی پر منحصر پالیسی کی بجائے سخت اقدامات کیے جاتے اور پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کی کوشش نہیں کی جاتی تو حالیہ صورتحال کی نوبت نہیں آئی ہوتی۔

اس تلخ حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ خیبرپختونخوا میں حکومتی رٹ عملاً نہ ہونے کی برابر ہے اور اگر یہ صورتحال اسی طرح جاری رہی تو عوام کا اعتماد ریاست پر سے اٹھ جائے گا کیونکہ سب کچھ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ حکومت سرینڈر کرگئی ہے اور سسٹم ایک ضلع میں خود کو ثابت کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ اگر معاہدہ واقعتاً ہوچکا ہے تو نوبت یہاں تک کیوں پہنچی کہ ڈپٹی کمشنر پر کھلے عام حملہ کیا گیا اور امدادی قافلے کو حرکت کرنے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکا؟

وہ مظاہرین کون ہیں جنہوں نے دو تین مقامات پر دھرنا دے رکھا ہے اور انتظامیہ بے بس ہوکر تماشہ دیکھنے پر مجبور ہے۔ بیرسٹر محمد علی سیف اور ان کی حکومت کی رٹ اتنی کمزور کیوں ہوگئی ہے کہ تین مہینے گزرنے کے باوجود ایک محدود ضلع کے معاملات ان سے کنٹرول نہیں ہوپارہے اور ایک ایٹمی ملک کی رٹ اور سسٹم کو مذاق بناکر رکھا گیا ہے۔ یہ کوئی خبر یا پیشرفت نہیں کہ ڈپٹی کمشنر پر فائرنگ کرنے والے کسی مبینہ ملزم کو پکڑا گیا ہے۔ سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ ڈپٹی کمشنر کے قافلے پر حملہ کرنے کی نوبت کیوں پیش آئی اور اتنی بڑی جرات کس نے کی؟

اگر کرم کا مسئلہ واقعتاً مقامی ایشو ہے تو یہ حل کیوں نہ ہوسکا اور اس صورتحال کا ہنگامی طور پر نوٹس کیوں نہیں لیا گیا۔ ایک حساس اور جنگ زدہ صوبے کی حکومت کی اگر یہ کارکردگی ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس حکومت کے برقرار رہنے یا رکھنے کا اخلاقی یا انتظامی جواز کیا ہے؟ وقت کا تقاضا ہے کہ اسٹیک ہولڈرز اس حکومت کے قایم رکھنے کا جواز فراہم کریں اور ثابت کیا جائے کہ پاکستان کوئی بنانا ریاست نہیں ہے۔

(7جنوری 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts