ہم میں سے اکثر ذہنی دہشت گرد ہیں، غلطیاں نہیں دہرائی جائے بلکہ آگے بڑھا جائے، صدر اے این پی
پی ٹی آئی کی کابینہ میں دہشت گردوں کے ترجمان بیٹھے ہوئے ہیں، یہ پارٹی ٹی ٹی پی کی پولیٹیکل ونگ ہے۔ خصوصی انٹرویو
پشاور (غگ رپورٹ) عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مرکزی صدر سینیٹر ایمل ولی خان نے پی ٹی آئی کو کالعدم ٹی ٹی پی کی پولیٹیکل ونگ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس پارٹی کی پالیسی کا عالم یہ ہے کہ صوبائی حکومت کی کابینہ میں دہشت گردوں کے حامی اور ترجمان بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے کہ آرمی چیف نے موثر انداز میں تمام قیادت کے سامنے پشاور اجلاس کے دوران اپنا پوائنٹ آف ویو رکھا اور ہم نے ان کے سامنے اپنی تجاویز رکھیں تاہم جب گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کاؤنٹر ٹیررازم سے متعلق فنڈز کا ایشو اٹھایا تو وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور سیخ پا ہوئے اور اتنے سنجیدہ فورم سے کچھ دیر کے لئے واک آؤٹ کرگئے تاہم بیرسٹر گوہر کا رویہ سنجیدہ رہا اور انہوں نے آرمی چیف کے ساتھ الگ بات چیت بھی کی جو کہ اچھی بات ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ایمل ولی خان نے کہا کہ اگر موجودہ آرمی چیف اور عسکری قیادت اپنے عزم کے مطابق دہشتگردی کی ناسور اور وباء کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے تاہم اس ناسور کے خاتمے کے لئے تین اہم اقدامات لازمی ہے۔
- ایک یہ کہ ٹروتھ اینڈ ری کنسی لیشن کمیشن بنایا جائے جس کے ذریعے ماضی کی غلطیوں کی نشاندھی ہو اور سہولت کاروں کا تعین ہو۔
- دوسرا یہ کہ نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عملدرآمد کو ہنگامی طور پر یقینی بنایا جائے۔
- تیسرا یہ کہ جن علاقوں اور لوگوں کا اس تمام عرصے میں جانی اور مالی نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ کیا جائے۔
ان کے بقول لازمی ہے کہ پالیسیوں میں کاؤنٹر ٹیرازم کے حوالے سے تسلسل کو یقینی بنایا جائے اور اس ناسور کے خاتمے کے لئے محض فوجی کارروائیوں پر انحصار کی بجائے سیاسی، فکری اور سماجی سطح پر کام کیا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا راستہ روکنے کی مستقل پالیسی اپنائی جائے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دہشت گردی پاکستان، افغانستان اور پورے خطے کا مشترکہ مسئلہ ہے تاہم بدقسمتی یہ ہے کہ اب تک کی جو صورتحال سامنے آتی رہی ہے اس کے نتیجے میں ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف اس ناسور اور وباء سے سب سے زیادہ پشتون ہی متاثر ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے خدشات اور ہماری شکایات زیادہ ہیں جن کی تلافی ہونی چاہیے۔
(16جنوری 2025)