GHAG

قومی بیانیہ اولین ضرورت

روخان یوسفزئی

جیسا کہ میڈیا کے ذریعےآپ سب کے علم میں آیا ہوگا کہ گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر پشاور کے دورے پر آئے تھے اور خیبرپختونخوا کی مختلف سیاسی،مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے نمائندوں کیساتھ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے حوالے سے تفصیلی بات چیت کی۔ ان نمائندوں نے آرمی چیف سے اس ملاقات بالفاظ دیگر اہم میٹنگ میں دہشت گردی کے خلاف مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غیرمتزلزل حمایت پر واضح موقف اپناتے ہوئے دہشت گرد گروپوں کے انتہاپسندانہ اور شدت پسندانہ فلسفے اور نظریات کے خلاف ایک متحدہ محاذ کی ضرورت پر اتفاق کیا۔ اس موقع پر آرمی چیف سید عاصم منیر نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ دہشت گردی کی ہماری سرزمین پر کوئی جگہ نہیں ہے۔یہ جنگ جاری ہے اور ہم اسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

آرمی چیف کے انہی الفاظ کیساتھ مجھے اپنے دوست اور ملک کے معروف سینئر صحافی،کالم نگار،تجزیہ کار اور کئی کتابوں کے مصنف عقیل یوسفزئی کی کتاب ”اور جنگ جاری ہے“ یاد آئی جو گزشتہ سال چھپ کر مارکیٹ میں آئی۔ مذکورہ کتاب اپنے منفرد موضوع، اہمیت اور مضبوط تحقیقی حوالوں کی وجہ سے گرم پکوڑوں کی طرح ہاتھوں ہاتھ بک گئی۔ آرمی چیف سیدعاصم منیر نے بھی واضح انداز میں کہا کہ یہ جنگ جاری رہے گی جسے ہم ایک قسم عقیل یوسفزئی کی ”اور جنگ جاری ہے“ کی تصدیق بھی کہہ سکتے ہیں۔یعنی بقول شاعر

اے لوگوں میں ولی تھا نہ پیامبر

مگر جو کچھ کہا وہ ہوکے رہا

بہر حال گزشتہ دنوں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے ہونے والی ملاقات میں جس بات پر اتفاق کیا گیا یعنی ایک متحدہ محاذ اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنا تو یقیناً یہ خوش آئند اور قابل ستائش اقدام اور موقف ہے،کیونکہ آج ہمارا ملک اور معاشرہ جن مسائل کا شکار ہے ان میں سب سے بڑا اور خطرناک مسئلہ انتہاپسندی، شدت پسندی، عدم برداشت، سازشی نظریات اور دہشت گردی ہے اور جب تک ہم بحیثیت قوم اس مسئلے سے نہیں نمٹیں گے، تب تک اس کے خلاف جاری جنگ جیتنا ناممکن ہے۔ لہٰذا متحدہ سیاسی آواز اور ایک متفقہ قومی بیانیہ موجودہ حالات اور وقت کی اولین ضرورت بن چکا ہے کیونکہ ہم کئی دہائیوں سے اس ناسور کا شکار ہیں جو روز بروز پھیلتا اور بڑھتا جارہا ہے۔اس ناسور کو پھیلانے اور بڑھانے والے پاکستان مخالف عناصر کیساتھ ساتھ ہمارے اپنے”چھپے ہوئے رستم“ بھی ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری سیکیورٹی ایجنسیاں فرنٹ اور بیک لائن پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہیں مگر دہشت گردی کے اس تناور درخت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے پوری قوم، دانشور، میڈیا، سیاسی اور مذہبی قیادت کو ایک پیج پر ہونا پڑے گا۔ایک ہی قومی بیانیہ اپنانا اور عام کرنا ہوگا۔

ہماری سرزمین پر افغانستان سے لائے جانے والے غیرملکی اسلحہ سمیت وہاں سے آئے ہوئے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے ثبوت بھی منظرعام پر آئے ہوئے ہیں یعنی اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہ رہی کہ ہمسایہ ملک افغانستان کسی نہ کسی طریقے سے پاکستان کو کمزور اور بدامنی میں مبتلا کرنے سے باز نہیں آتا۔یوروایشین ٹائمز کے مطابق پاکستان میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے غیرملکی ساخت کا اسلحہ بھی استعمال کیا ہے۔ بہرحال دیکھا جائے تو ملک میں دیگر مسائل اور مشکلات میں سے سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ دہشت گردی ہے اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ آج ہم اس ناسور کے خلاف سب سے بڑی جنگ لڑرہے ہیں۔ اس جنگ میں پاکستانی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے اور ظاہر ہے جب تک ہم یہ جنگ جیتیں گے نہیں تو مزید نقصان اٹھانا پڑے گا، اور اس جاری جنگ میں سرخرو اور فاتح ہونے کے لیے پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر کی اس بات کو سنجیدہ لینا پڑے گا کہ ”دہشت گردی کے اس ناسور سے نمٹنے کے لیے تمام شراکت داروں کو قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا“ لیکن اس حوالے سے حکومتی پالیسوں میں ابہام اس لیے محسوس ہورہا ہے کہ سیاسی جماعتیں اہم قومی معاملات پر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں۔

تاہم گزشتہ روز ہونے والی ملاقات اس حوالے سے بڑی حوصلہ افزا،قابل تعریف اور قابل ستائش ہے کہ خیبرپختونخوا کی سطح پر مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے نمائندوں نے باہمی اتفاق رائے اور یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ایک اچھی روایت کی طرح ڈال دی لہذا تمام شراکت داروں اور پوری قوم کو اس روایت کو آگے لے جانے کی ضرورت ہے اور وقت کا اہم تقاضہ ایک متفقہ قومی بیانیہ ہے۔

(17 جنوری 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts