GHAG

سوشل میڈیا انقلابی: نوجوانوں کی طاقت یا تباہی کا ذریعہ؟

بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی

جب کمپیوٹر اور موبائل فون ہر عام و خاص کی دسترس میں آ گئے اور آہستہ آہستہ سوشل میڈیا بھی عام ہونا شروع ہوا، تو اسے ایک انقلابی ذریعہ سمجھا گیا۔ خیال تھا کہ یہ دنیا کو جوڑ دے گا، مختلف معاشروں، قوموں اور طبقات کو ایک دوسرے کے قریب لائے گا۔ امید کی گئی کہ یہ اظہارِ رائے کی آزادی کو فروغ دے گا، مثبت مکالمے کو جنم دے گا، اور لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع فراہم کرے گا۔ لیکن یہ ساری توقعات زیادہ دیر قائم نہ رہ سکیں، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ واضح ہوتا گیا کہ سوشل میڈیا نے انسان کو جوڑنے سے زیادہ توڑنے کا کام کیا۔

دنیا کے ہر معاشرے کا اپنا تہذیبی مزاج اور تمدنی رویہ ہے، اسی لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی ہر جگہ مختلف ہے۔ کہیں اسے مثبت سماجی تبدیلی کے لیے استعمال کیا گیا، تو کہیں یہ بدنظمی، انتہا پسندی اور افواہوں کا ذریعہ بن گیا۔ لیکن اگر ہم پاکستان کے تناظر میں بات کریں، تو اگرچہ کہیں نہ کہیں اس کا مثبت استعمال بھی ہوا ہے، بدقسمتی سے زیادہ تر یہ ایسے ثابت ہوا جیسے بندر کے ہاتھ میں استرا آ جائے، جو جس کے قریب آیا، اس کا گلا کاٹ دیا۔

ماضی اور حال کی مثالیں تو بے شمار ہیں جہاں سوشل میڈیا کے غلط استعمال نے زندگیاں اجاڑ دیں، لیکن بڑی اور افسوسناک مثالوں میں سے ہم چند سال قبل مردان، خیبر پختونخوا کی عبد الولی خان یونیورسٹی میں پیش آنے والے مشال خان کے واقعے کی دیتے ہیں۔ یہ واقعہ اس لیے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے کہ یہ جرم عام سڑک پر نہیں، بلکہ ایک یونیورسٹی کی حدود میں ہوا، اور وہ بھی جرنلزم کے ڈیپارٹمنٹ میں، جہاں کے طلبہ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بحیثیت صحافی یا میڈیا پرسن معاشرے کی اصلاح کریں گے، اور عوام تک سچ پہنچائیں گے۔ مگر ان طلبہ نے نہ صرف ان تمام توقعات کو غلط ثابت کیا، بلکہ جہالت کی انتہا کر دی۔ بغیر کسی تحقیق، بغیر مؤقف سنے، سوشل میڈیا پر گردش کرتی افواہوں کی بنیاد پر مشال خان کو ایک وحشیانہ ہجوم نے  بےدردی سے مار دیا۔ انصاف، مکالمہ، یا دلیل ، سب کچھ اس شور میں دفن ہو گیاـ

یہ مثال اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ واقعہ ایک یونیورسٹی میں پیش آیا،  جہاں طالب علم اعلیٰ تعلیم کے آخری مرحلے میں ہوتے ہیں، اور ان سے علم، فکر اور شعور کی بلند ترین سطح کی امید رکھی جاتی ہے۔ لیکن ان کے عمل نے یہ ثابت کیا کہ ان کا علم، شعور اور فہم بھی ایک عام غیر تعلیم یافتہ، سوشل میڈیا کے زیرِ اثر فرد کی سطح پر ہے۔ نہ سوال اٹھانے کی ہمت، نہ تحقیق کا مزاج، اور نہ ہی انسانیت کا احترام۔

سوشل میڈیا کا ایک خطرناک پہلو یہ بھی ہے کہ اسے اب دہشت گرد تنظیمیں بھی اپنی سرگرمیوں کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ نوجوانوں کو ورغلانے، نفرت انگیز مواد پھیلانے، اور پروپیگنڈا کے ذریعے ذہن سازی کرنے میں سوشل میڈیا ایک موثر ہتھیار بن چکا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں نوجوانوں کو آن لائن برین واش کر کے شدت پسندی کی راہ پر لگایا گیا۔ یہ امر صرف انفرادی نقصان نہیں، بلکہ قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بن چکا ہے۔

اسی طرح ایک تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا کو بڑے پیمانے پر ملک اور اس کے ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا انقلابیوں کو یہ احساس ہی نہیں ہو رہا کہ وہ آج کسی سیاسی جماعت، انسانی حقوق کے دعوے دار کسی گروہ یا بیرونی نظریے کی بنیاد پر جس زہریلے پروپیگنڈے کا حصہ بن رہے ہیں، وہ ان کے اپنے ہی ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔ انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ وہ جس وطن کے خلاف دن رات تنقید، بدزبانی، اور الزام تراشی کرتے ہیں، اسی ملک نے انہیں یہ آزادی دی ہے۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہر روز بولنے کی آزادی کا رونا بھی وہی لوگ روتے ہیں جو بے لگام بولنے کی کھلی آزادی کا فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں ، اور وہ بھی صرف پاکستان میں۔

اگر ان کا مطالعہ ہوتا، تو معلوم ہوتا کہ جو ممالک آج انسانی حقوق، آزادی اور جمہوریت کے دعویدار ہیں، وہاں ان چیزوں کی اصل حالت کیا ہے۔ پاکستان میں اگر کسی ایک صحافی کے کسی ادارے سے نکالے جانے پر  طوفان مچتا ہے، تو امریکہ جیسے ملک میں حال ہی میں ایک بَرسوں پرانی قومی نشریاتی ادارہ “وائس آف امریکہ” کو بیک جنبش قلم  بند کر دیا گیا۔ ہزاروں صحافی اور ملازمین ایک ہی دن میں فارغ کر دیے گئے، اور کسی کو احتجاج کی جرات نہ ہوئی۔ ‘سوشل میڈیا انقلابیوں’ کو اپنی آزادی کی قدر کرنی چاہیے  اور اگر وہ واقعی سمجھنا چاہیں کہ وطن کی اہمیت کیا ہوتی ہے، تو کسی ایسے شخص سے پوچھیں جس کا کوئی ملک نہیں۔

آج کا نوجوان سوشل میڈیا سے جتنا جڑا ہوا ہے، اتنا ہی حقیقت سے دور ہو چکا ہے۔ اس کا نالج صرف پوسٹس، میمز اور کلپس تک محدود ہے۔ وہ سنی سنائی باتوں کو سچ مان لیتا ہے، اور بغیر کسی تحقیق یا تصدیق کے انہیں آگے پھیلاتا ہے۔ کسی پوسٹ کو سمجھے بغیر، اس پر اپنی مرضی کا مطلب نکالتا ہے، اور جیسے ہی کوئی اختلاف کرے، فوراً بدتمیزی، گالم گلوچ اور تضحیک پر اتر آتا ہے۔ سوشل میڈیا اب مکالمے کا پلیٹ فارم نہیں رہا، بلکہ “میں ٹھیک ہوں اور باقی سب غلط” کے زہریلے کلچر کا گڑھ بن چکا ہے۔ یہ وہ فضا ہے جہاں دلیل ہار جاتی ہے اور شور جیت جاتا ہے۔

یہ طرزِ عمل صرف انفرادی نہیں، بلکہ اجتماعی نقصان کا باعث بھی بن رہا ہے۔ کئی مرتبہ ہم نے دیکھا کہ کسی کی نجی زندگی، کردار یا نظریے پر محض ایک وائرل پوسٹ کی بنیاد پر ہجوم ٹوٹ پڑتا ہے۔ نہ اخلاقیات کی پروا، نہ قانون کی، اور نہ ہی کسی کی عزت کی۔ یہ وہ تباہی ہے جو آزادیٔ اظہار کے نام پر پھیل رہی ہے، اور ہم سب اس کا شکار بن رہے ہیں۔

سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح، جمہوریت، اور انسانی حقوق کے لیے برسوں سے جدوجہد کرنے والے سنجیدہ افراد اب آہستہ آہستہ سوشل میڈیا سے کنارہ کش ہو رہے ہیں۔ وہ ان “سوشل میڈیا انقلابیوں” کے معیارِ پستی تک نہیں گر سکتے، اور نہ ہی ان کا شور و غوغا انہیں سمجھ سکتا ہے۔ ایسے لوگ اب خاموشی کو بہتر سمجھتے ہیں، کیونکہ یہاں دلیل دب جاتی ہے اور بدتمیزی وائرل ہو جاتی ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ اس بگڑتے ہوئے رویے کے تدارک کے لیے سنجیدہ، اجتماعی اور ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ سب سے پہلے تو تعلیمی اداروں میں سوشل میڈیا کی اخلاقیات اور ذمہ داریوں کو باقاعدہ تعلیم کا حصہ بنایا جائے۔ دوسرا، میڈیا لٹریسی پر مبنی ورکشاپس، سیمینارز اور آگاہی مہمات چلائی جائیں تاکہ نوجوان افواہ، خبر اور رائے میں فرق سیکھ سکیں۔ تیسرا، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سخت مانیٹرنگ اور قوانین متعارف کرائے جائیں جو غلط معلومات، کردار کشی اور نفرت انگیز مواد کو روکنے میں مؤثر ہوں۔ چوتھا اور سب سے اہم، والدین، اساتذہ اور رائے ساز افراد نوجوانوں کی تربیت میں اپنی ذمہ داری محسوس کریں اور انہیں صرف ٹیکنالوجی کے استعمال کا نہیں، اس کے اثرات اور اخلاقیات کا شعور بھی دیں۔

اگر ہم نے ابھی اصلاح کی کوشش نہ کی، تو یہ ‘سوشل میڈیا انقلابی’ کل ہمارے معاشرے کے ایسے لیڈر بنیں گے جو صرف بول سکتے ہیں، مگر سن نہیں سکتے۔ اور جب معاشرے کے کان بند ہو جائیں، تو تباہی آتی ہے ، خاموش، مگر مکمل۔

(26 مارچ 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts