اے وسیم خٹک
خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے شگوفے چھوڑنے کی عادت ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔ وزیراعلیٰ بننے کے بعد وہ بارہا ایسی باتیں کر چکے ہیں جو نہ صرف عوام بلکہ اپنی ہی پارٹی کے اراکین کو بھی پریشان کر چکی ہیں۔ کسی نہ کسی موقع پر وہ اپنے ہی پارٹی ممبران پر الزامات یا طنز کے تیر برساتے ہیں، جس کے بعد پارٹی کے دیگر عہدیداران بھی جوابی بیانات دینا شروع کر دیتے ہیں۔ شروع دن سے ہی وزیراعلیٰ پر کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں۔ دوسری جانب، وہ پارٹی کے ان رہنماؤں پر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں جو عمران خان کے قریبی سمجھے جاتے ہیں، جیسے تیمور جھگڑا اور کامران بنگش۔ اطلاعات کے مطابق عمران خان انہیں دوبارہ پارٹی کی صفوں میں فعال کردار دینا چاہتے ہیں، مگر امین گنڈاپور ان کی واپسی کے حق میں نہیں، بلکہ الٹا ان پر بھی الزامات عائد کرتے ہیں، جس کے جواب میں الزامات کی بوچھاڑ دونوں اطراف سے شروع ہو جاتی ہے۔
حالیہ دنوں میں وزیراعلیٰ اور تیمور جھگڑا کے درمیان واٹس ایپ گروپ میں ہونے والی بحث نے ایک نئی بحث کو جنم دیا۔ امین گنڈاپور نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے دھرنوں پر 75 کروڑ روپے خرچ کیے، جس پر تیمور جھگڑا نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور سوال اٹھایا کہ آپ کے اثاثے تو دس کروڑ کے تھے، یہ رقم کہاں سے آئی؟ اس کے بعد امین گنڈاپور نے عاطف خان، اسد قیصر اور شہرام ترکئی جیسے سینئر رہنماؤں کے بارے میں بھی کہا کہ عمران خان انہیں ٹکٹ نہیں دینا چاہتے تھے۔ انہیں پارٹی کے اندرونی سازشی عناصر قرار دے کر الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس سے پارٹی کے اندر اختلافات شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔
پارٹی کے اندرونی حلقوں میں اب یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ کیا وزیراعلیٰ کسی خاص اشارے پر سرگرم عمل ہیں؟ اور یہ کہ اگر حالات اسی طرح بگڑتے رہے تو وہ وزارتِ اعلیٰ سے بھی ہاتھ دھو سکتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست ہمیشہ سے غیر متوقع موڑ لیتی رہی ہے۔ ماضی میں مسلم لیگ (ق) اور دیگر جماعتوں کا عروج و زوال ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ رہا ہے، اور اب تحریک انصاف بھی اسی راہ پر گامزن نظر آتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ، سیاسی جوڑ توڑ، ادارہ جاتی دباؤ، اور داخلی انتشار نے اس جماعت کو ایک سنگین بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، تحریک انصاف کے اندر سے بڑی تعداد میں اہم رہنما پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ خاص طور پر پانچ قانونی ماہرین وکلا، اور پنجاب سے 21 ایم پی اے، جبکہ وفاق سے 15 ایم این ایز بھی پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اس علیحدگی کا باضابطہ اعلان 9 مئی کے فیصلے کے بعد متوقع ہے۔
تحریک انصاف کے دیرینہ گڑھ خیبر پختونخوا میں بھی اب قیادت بکھرتی نظر آ رہی ہے۔ علی امین گنڈاپور کی قیادت میں 27 ایم پی ایز پر مشتمل ایک گروپ ممکنہ طور پر عمران خان سے فاصلہ اختیار کرتے ہوئے خودمختار سیاسی صف بندی اختیار کر سکتا ہے۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وفاقی حکومت خیبر پختونخوا کی حکومت کو بظاہر سپورٹ کر رہی ہے، جو اس تاثر کو مزید تقویت دیتی ہے کہ مرکزی حکمت عملی یہی ہے کہ پی ٹی آئی کو مکمل طور پر تنہا کر کے باقی ماندہ قیادت کو بھی منتشر کر دیا جائے۔
پیپلز پارٹی نے 2023 کے بعد امید باندھی تھی کہ اگلی حکومت اس کی ہو گی اور بلاول بھٹو زرداری وزیر اعظم بن سکیں گے، مگر اب مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کی مضبوط گرفت نے اس خواب کو دھندلا دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کو سیاسی طور پر حاشیے پر دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اور اگر یہ روش برقرار رہی تو آئندہ انتخابات میں اسے سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ پاکستان کی سیاست کا اگلا موڑ کیا ہوگا، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ کوئی جماعت مستقل ناقابل شکست نہیں ہوتی۔ جو پارٹیاں عوامی مسائل کو نظرانداز کر کے ذاتی و گروہی مفادات میں الجھتی ہیں، وہ جلد یا بدیر زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ مسلم لیگ (ق) اور اب تحریک انصاف اس کی تازہ مثالیں ہیں۔
تحریک انصاف کا داخلی بحران اور خیبر پختونخوا کی سیاست تحریک انصاف کا زوال ایک بڑی سیاسی تبدیلی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ اگر عمران خان نے غیر متوقع فیصلہ نہ کیا تو پارٹی کا شیرازہ بکھرنے کے واضح امکانات موجود ہیں خاص طور پر خیبر پختونخوا میں ابھرتا ہوا اختلاف، پنجاب اور وفاق میں قیادت کی تقسیم، اور حکومت کی بڑھتی گرفت پارٹی کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔
البتہ اس وقت عمران خان کو علی امین گنڈاپور کو لگام دینی چاہیے۔ اس وقت پارٹی اندرونی جھگڑوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اگر یہ اختلافات اسی طرح بڑھتے رہے تو پارٹی کی عوام میں جو باقی بچی کھچی مقبولیت ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ خیبر پختونخوا میں سیاسی استحکام کے لیے یہ ضروری ہے کہ گنڈاپور اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے اختلافات کو جلد از جلد حل کیا جائے، تاکہ صوبے میں حکومت کا کنٹرول برقرار رکھا جا سکے۔
(7 اپریل 2025)