اے وسیم خٹک
صدر ٹرمپ کے آنے کے بعد امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں میں تبدیلی غیر متوقع نہیں تھی لیکن بعض تبدیلیاں بنیادی نوعیت کی ہیں اور ان سے لاکھوں نہیں، کروڑوں افراد متاثر ہورہے ہیں۔
بعض پالیسیوں سے پاکستانی متاثر ہورہے ہیں کچھ روز قبل ایک خبر آئی کہ امریکا میں زیر تعلیم سیکڑوں غیرملکی طلبہ کے ویزے منسوخ کردیے گئے ہیں۔ ان میں عام یونیورسٹیوں کے نہیں، بڑی اور اہم یونیورسٹیوں کے طلبہ شامل ہیں۔ ہارورڈ، یو پین، جان ہاپکنز، سب متاثر ہوئی ہیں۔ ان میں بہت سے پاکستانی طلبہ بھی شامل ہیں۔
یو ایس ایڈ کو پہلے ختم کیا جاچکا ہے۔ وائس آف امریکا کو بھی جڑ سے اکھاڑ دیا گیا ہے۔ ان دونوں سے پاکستانی متاثر ہوئے۔ پاکستان کے لیے ایکسچینج پروگرام بند کردیا گیا۔ اس پروگرام سے ہزاروں پاکستانیوں نے فائدہ اٹھایا۔
امریکی اسکالرشپس دستیاب ہیں۔ بظاہر ویزے کے اجراء پر بھی پابندی نہیں، لیکن اب ناں ہی سمجھیں۔ پاکستان سے امریکا آنا پہلے بھی آسان نہیں تھا۔ لیکن اب عام آدمی کے لیے نیکسٹ ٹو امپاسبل ہوگیا ہے۔ امرا کو بھی اس کے لیے کافی پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔
پہلے وسطی اور جنوبی امریکا سے ہزاروں افراد کے قافلے نکلتے تھے اور میکسیکو کی سرحد سے امریکا میں گھس آتے تھے۔ اب وہاں سناٹا پڑا ہے اور امریکی میڈیا کے مطابق معکوس ہجرت ہورہی ہے۔
اسی تناظر میں ایک اہم پیش رفت یہ بھی سامنے آئی ہے کہ امریکہ نے گلوبل سمسٹر ایکسچینج سسٹم بھی بند کر دیا ہے۔ اس سسٹم کے تحت طلبہ کو ایک سمسٹر کے لیے امریکی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے منتخب کیا جاتا تھا اور تمام اخراجات امریکی حکومت برداشت کرتی تھی۔ بعد ازاں، جب وہ طلبہ اپنے وطن میں گریجویشن مکمل کر لیتے تھے، تو انہیں ماسٹرز کے لیے دوبارہ اسکالرشپ پر امریکہ بلایا جاتا تھا۔ یہ ایک بہترین اسکیم تھی جو کہ نہ صرف طلبہ کی صلاحیتیں نکھارتی تھی بلکہ بین الاقوامی روابط اور علمی ترقی کا ذریعہ بھی بنتی تھی۔ اس نظام کے بند ہونے سے وہ ذہین طلبہ، جن کے والدین بیرون ملک تعلیم کے اخراجات نہیں اٹھا سکتے، اعلیٰ تعلیم کے خواب سے محروم ہو جائیں گے۔
اگر امریکا جیسے ملک کی جانب سے تعلیمی، ترقیاتی اور تبادلہ پروگراموں کے دروازے بند ہو رہے ہیں تو یہ مایوسی کی بجائے متبادل مواقع تلاش کرنے کا لمحہ ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ دنیا میں اب صرف امریکا ہی ترقی، تعلیم یا مواقع کا مرکز نہیں رہا۔ کئی دوسرے دروازے پاکستانی نوجوانوں اور پروفیشنلز کے لیے کھل رہے ہیں، جن پر توجہ دی جانی چاہیے۔
یورپ کے کئی ممالک بین الاقوامی طلبہ کے لیے نہ صرف دروازے کھول رہے ہیں بلکہ مالی تعاون کے ساتھ خوش آمدید بھی کہہ رہے ہیں۔ جرمنی، سویڈن، فن لینڈ اور ہالینڈ جیسے ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالرشپ، رعایتی یا مفت تعلیم دستیاب ہے۔ جرمن یونیورسٹیاں خاص طور پر سائنس اور انجینئرنگ میں عالمی معیار کی تعلیم فراہم کرتی ہیں، اور زبان سیکھنے کے کورسز بھی اکثر مفت فراہم کیے جاتے ہیں۔
چین پاکستان کا دیرینہ دوست ہونے کے ناطے تعلیمی میدان میں بھی بھرپور تعاون کر رہا ہے۔ ہر سال سینکڑوں پاکستانی طلبہ کو چینی حکومت کی طرف سے اسکالرشپ دی جاتی ہیں۔ ان اسکالرشپس میں ٹیوشن فیس، رہائش، کھانے پینے اور ماہانہ وظیفہ بھی شامل ہوتا ہے۔ چین کی یونیورسٹیاں اب عالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل کر رہی ہیں۔
ترکی بھی تعلیم کے میدان میں پاکستانیوں کے لیے ایک پرکشش منزل بن چکا ہے۔ ترکیہ بورسلاڑی پروگرام کے تحت ہر سال کئی پاکستانی نوجوان اعلیٰ تعلیم کے لیے ترکی جاتے ہیں۔ اس پروگرام میں مکمل اخراجات حکومت ترکی برداشت کرتی ہے اور طلبہ کو کئی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
ملائشیا، سعودی عرب، اور قطر جیسے ممالک بھی تعلیم کے میدان میں ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ خاص طور پر سعودی عرب میں اب تحقیق اور جدید علوم پر توجہ دی جا رہی ہے۔ ملائشیا کی یونیورسٹیاں بین الاقوامی رینکنگ میں تیزی سے ترقی کر رہی ہیں، اور وہاں تعلیم کا ماحول بھی پاکستانی طلبہ کے لیے موافق ہے۔
برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں تعلیم نسبتاً مہنگی ضرور ہے، مگر میرٹ پر مکمل اسکالرشپ دستیاب ہیں۔ چیوننگ اسکالرشپ، کامن ویلتھ اسکالرشپ اور آسٹریلیا ایوارڈز جیسے پروگرام اب بھی پاکستانی طلبہ کے لیے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ صرف محنت، درست رہنمائی اور وقت پر درخواست دینے کی ضرورت ہے۔
ان ممالک کے علاوہ دنیا بھر میں آن لائن تعلیم کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ کورسیرا، ای ڈی ایکس، فیوچر لرن اور یوڈیمی جیسے پلیٹ فارمز پر دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں کے کورسز مفت یا کم قیمت میں دستیاب ہیں۔ اب علم کے حصول کے لیے کسی خاص ملک میں موجود ہونا ضروری نہیں رہا۔
پاکستان کے اندر بھی تعلیمی مواقع موجود ہیں، بس انہیں پہچاننے اور استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن، مختلف صوبائی حکومتیں، اور بعض نجی ادارے اسکالرشپ اور مالی امداد فراہم کر رہے ہیں۔ بعض اوقات ہم بیرونی مواقع کی تلاش میں اپنے قدموں تلے چھپے مواقع کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔
یہ وقت مایوسی کا نہیں بلکہ نظر ثانی اور نئے راستے تلاش کرنے کا ہے۔ دنیا بدل رہی ہے، اور پاکستانی نوجوانوں کو بھی اپنی سوچ، حکمت عملی اور تیاری کو اس تبدیلی کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو اس کے مقابل کئی دوسرے دروازے کھل بھی رہے ہوتے ہیں، صرف دیکھنے والی آنکھ اور چلنے کا حوصلہ درکار ہے۔
(14 اپریل 2025)