GHAG

خیبر پختونخوا مائنز اینڈ منرلز ایکٹ 2025 کا جائزہ

اے وسیم خٹک

میں مائننگ اور معدنی وسائل سے متعلقہ شعبے کا ماہر نہیں ہوں، نہ ہی اس فیلڈ سے میری کوئی پیشہ ورانہ وابستگی رہی ہے، لیکن چونکہ میرا تعلق ضلع کرک سے ہے جہاں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں، اس لیے اس بل نے میری توجہ کھینچی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان وسائل کے ہوتے ہوئے بھی ہمارے علاقے کو اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچا۔ حکومت کی جانب سے دی گئی رائلٹی کے استعمال کا اختیار ایم پی ایز اور ایم این ایز کے پاس رہا، جنہوں نے ذاتی مفادات کو ترجیح دی۔ نہ مقامی لوگوں کو روزگار ملا، نہ ترقیاتی منصوبے دیکھنے کو ملے — صرف ماحولیاتی آلودگی، ٹوٹی سڑکیں اور محرومیاں ہی ہمارے حصے میں آئیں۔

2017 کے قانون میں وعدہ کیا گیا تھا کہ مائننگ کی آمدن مقامی ترقی پر خرچ کی جائے گی اور مقامی نوجوانوں کو ترجیحی بنیادوں پر ملازمتیں دی جائیں گی۔ لیکن یہ وعدے زبانی جمع خرچ سے آگے نہ بڑھ سکے۔ ان محرومیوں اور سوالات نے مجھے مجبور کیا کہ میں مجوزہ خیبر پختونخوا مائنز اینڈ منرلز ایکٹ 2025 پر تحقیق کروں اور ماہرین سے بات چیت کے بعد جو کچھ سمجھ سکا، وہ عام فہم انداز میں قارئین کے سامنے رکھوں تاکہ ہر شخص اپنی رائے خود قائم کر سکے کہ یہ بل واقعی صوبے کے لیے نقصان دہ ہے یا نہیں۔

نئے قانون میں کئی مثبت پہلو موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، سیکشن 81 کے تحت اب کمپنیاں مائننگ کے بعد زمین کو خالی اور برباد حالت میں نہیں چھوڑ سکیں گی، بلکہ اسے اسی حالت میں بحال کرنا لازم ہوگا جیسا کہ پہلے تھی۔ یہ ایک اہم ماحولیاتی اقدام ہے۔ اسی طرح سیکشن 84 میں سوشل امپیکٹ کا جائزہ لینے کی شق شامل کی گئی ہے، جس کے تحت مقامی آبادی کی فلاح، ترقی اور ملازمتوں کو ترجیح دی جائے گی۔ سیکشن 39.4 کے مطابق سونے کی مائننگ میں اب مرکری یعنی پارہ استعمال نہیں کیا جائے گا، جو ایک بڑا ماحولیاتی قدم ہے کیونکہ مرکری سے پھیلنے والی بیماریاں خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔

رائلٹی کے حوالے سے بھی اصلاح کی گئی ہے۔ پہلے صوبے کے مختلف علاقوں میں مختلف ریٹس تھے، لیکن اب سیکشن 89 کے مطابق پورے صوبے کے لیے یکساں نرخ مقرر کیے جائیں گے۔ اسی طرح سیکشن 85 میں 10 کلومیٹر کے اندر رہنے والے لوگوں کو ملازمت میں ترجیح دی جائے گی، تاکہ وہ علاقے جہاں مائننگ ہو رہی ہو، وہاں کے عوام کو براہ راست فائدہ مل سکے۔

غیر قانونی مائننگ کے خلاف بھی سخت اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ سیکشن 106 کے مطابق اب نہ صرف بھاری جرمانے ہوں گے بلکہ قید بھی دی جائے گی، اور خلاف ورزی کی صورت میں مستقل لائسنس بھی منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں ایک “مائنز اینڈ منرل فورس” قائم کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے (سیکشن 112 و شیڈول 11)، جو خلاف ورزی پر کارروائی کرے گی۔

تاہم، ان تمام مثبت نکات کے ساتھ ساتھ کچھ شقیں ایسی بھی ہیں جو نہ صرف متنازعہ ہیں بلکہ صوبائی خودمختاری، عوامی حقوق اور آئینی حدود پر سوالات اٹھاتی ہیں۔ سیکشن 3.2، سیکشن 30.2 اور سیکشن 100 جیسے نکات یہ واضح کرتے ہیں کہ وفاق کو مخصوص معدنیات کو “سٹریٹیجک” قرار دے کر ان پر کنٹرول حاصل ہو جائے گا۔ مثلاً لیتھیم، یورینیم، کاپر، گولڈ وغیرہ۔ صوبائی جماعتیں اس بات پر سراپا احتجاج ہیں کہ یہ اٹھارہویں ترمیم کی صریح خلاف ورزی ہے اور وفاقی اداروں کو صوبائی وسائل پر قبضہ دلانے کی کوشش ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی نے تو اس بل کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے خیبر پختونخوا کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا ہے۔ میاں افتخار حسین کے مطابق یہ قانون نہ صرف اٹھارہویں ترمیم کی خلاف ورزی ہے بلکہ اسے واپس نہ لیا گیا تو اے این پی بھرپور مزاحمت کرے گی اور عدالتی چارہ جوئی سے بھی گریز نہیں کرے گی۔ ان کے بقول، 2017 کا قانون موجود تھا، تو یہ نیا قانون آخر کن کے مفادات کے لیے لایا جا رہا ہے؟ یہ بل پارلیمان کے بجائے کسی اور دفتر میں لکھا گیا محسوس ہوتا ہے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے بھی ابہام پایا جاتا ہے۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اور عاطف خان کے درمیان اختلافات کی خبریں ہیں۔ عاطف خان کا ماننا ہے کہ یہ بل عوامی مفاد کے خلاف ہے جبکہ وزیراعلیٰ اس کی حمایت میں ہیں۔ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کا کہنا ہے کہ بل ابھی اسمبلی سے منظور نہیں ہوا اور حتمی فیصلہ عمران خان کریں گے۔

سیکشن 20.2، 25، 49، اور 76.3 پر بھی سنگین اعتراضات سامنے آئے ہیں۔ ان شقوں کے تحت وفاقی اہلکار یا ضلعی کمشنر جیسے غیر منتخب افسران عوامی یا مقامی مالکان کے معدنی حقوق کا فیصلہ کریں گے، جسے غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ قانون وسائل پر قبضے کی ایک کوشش ہے یا پھر یہ معدنی شعبے کو جدید، شفاف اور ترقی یافتہ بنانے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے؟ کیا صوبائی خودمختاری، مقامی حقوق اور ماحولیاتی تحفظ کو برقرار رکھتے ہوئے سرمایہ کاری لانا ممکن نہیں؟ کیا تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر ایک بہتر قانون سازی نہیں ہو سکتی؟

یہ سوالات اہم ہیں، اور ان کے جواب تلاش کرنا صرف ماہرین، سیاستدانوں یا صحافیوں کی ذمہ داری نہیں — بلکہ ہم سب کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ میرے جیسے عام شہری، جو براہ راست متاثر ہوتے ہیں، انہیں بھی اب سوال اٹھانے اور جواب مانگنے کا حق حاصل ہے۔

لہٰذا، میں یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ اس مجوزہ قانون میں کیا اچھا ہے اور کیا خطرناک — اور کیا یہ واقعی پختونخوا کے مفاد میں ہے، یا اس کے وسائل اور اختیارات پر ایک نیا وار؟ سوچئے، سوال کیجئے، اور خاموشی توڑئے۔ کیونکہ وسائل پر پہلا حق اُن لوگوں کا ہے جن کی مٹی میں یہ دفن ہیں۔

(18 اپریل 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts