عقیل یوسفزئی
باخبر ذرائع اور بعض عملی اقدامات ، سفارتی کوششوں سے لگ یہ رہا ہے کہ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا پر مبنی دنیا کے اہم ترین خطے میں بعض اہم ممالک کی کوششوں سے نہ صرف یہ کہ امن کے قیام بلکہ علاقائی استحکام اور ترقی کے ایک ہم گیر فارمولے پر تیزی سے کام جاری ہے اور پاکستان ، افغانستان کے درمیان موجود کشیدگی کو کم کرنے کے ” پراجیکٹ” پر بھی تیزی کے ساتھ پیشرفت ہونے لگی ہے ۔
جو اہم ترین ممالک اس سلسلے میں بنیادی کردار ادا کرتے آرہے ہیں ان میں چین اور روس سرفہرست ہیں جبکہ متعدد وسطی ایشائی ریاستوں کے علاوہ سعودی عرب ، قطر ، یو اے ای اور کسی حد تک ان ممالک کے پس پردہ رہنے والا امریکہ بھی مشروط طور پر اس ” پراجیکٹ” کے اسٹیک ہولڈرز ہیں ۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان حال ہی میں ہونے والے غیر متوقع مذاکراتی عمل اور برف پگھلنے کے جاری سلسلے کو بھی اسی ” ری الائنمنٹ اور ری انگیجمنٹ” کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ دونوں ممالک بعض رکاوٹوں کے باوجود بہت جلد کاؤنٹر ٹیررازم کے ایک جامع پالیسی پر پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔
خطے میں جاری کشیدگی کے خاتمے اور بعض اہم ممالک کے درمیان ایک علاقائی بلاک کے قیام کا پہلی تجویز سال 2014 کے دوران سامنے آئی تھی اور اس تجویز کے محرکین میں پاکستان ، ایران ، چین اور افغانستان شامل تھے تاہم پاکستان میں حکومت کی تبدیلی اور افغانستان کے حالات میں مسلسل کشیدگی کے باعث اس تجویز یا فارمولے کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا ۔
گزشتہ ایک ڈیڑھ سال کے دوران چین کی کوششوں سے نہ صرف یہ تجویز پھر سے سامنے آئی بلکہ اب کے بار اس پراجیکٹ میں روس نے بھی غیر معمولی دلچسپی دکھائی اور حیران کن طور پر اس فارمولے کو بدلتے حالات کے تناظر میں سعودی عرب کی کوششوں سے امریکہ کی مشروط مگر محدود حمایت بھی حاصل ہوئی ۔
کاؤنٹر ٹیررازم اور کراس بارڈر ٹیررازم کے معاملات سے نمٹنے کیلئے ان تمام ممالک کے درمیان ایک وسیع مشاورت پر رواں برس غیر معمولی کام کیا گیا جس میں چین نے کلیدی کردار ادا کیا اور ماہرین پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری مذاکراتی عمل اور پیشرفت کو بھی چین ، روس اور سعودی عرب کی جوائنٹ وینچر کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں ۔
گزشتہ روز جس غیر متوقع انداز میں پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کابل کا دورہ کیا اور کراس بارڈر ٹیررازم سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے اتفاق رائے کی جو پیشرفت سامنے آتی دکھائی دی وہ اس سلسلے کی کڑی ہے اور اطلاعات ہیں کہ اس ضمن میں مزید بہتری واقع ہونے کے امکانات ہیں ۔ اسی دوران افغانستان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے اسلام آباد کا دورہ کرتے ہوئے تجارت کے فروغ پر پاکستانی حکام کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات کیے تو دوسری جانب چین اور روس کی کوششوں سے متعدد دیگر مسائل کے حل کی متعدد تجاویز پر بھی دوطرفہ طور پر عملی اقدامات کا آغاز کیا گیا ۔ اس تمام پراسیس کو سعودی عرب کے محمد بن سلمان کے ذریعے امریکہ کی آشیرباد بھی حاصل رہی کیونکہ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں بھی بعض بنیادی مثبت تبدیلیاں رونما ہوئیں اور کہا جانے لگا کہ امریکہ افغانستان اور خطے کے بعض دیگر علاقوں میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پاکستان پر پھر سے انحصار کرنے لگا ہے ۔
ممتاز تجزیہ کار نعمان خان کے مطابق پاکستان بعض اندرونی اور بیرونی پراکسیز اور لابیز کی ریاست مخالف کوششوں کے باوجود گزشتہ دو تین برسوں سے عالمی اور علاقائی سطح پر پھر سے بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے اور آج حالت یہ ہے کہ ہمارے نہ صرف یہ کہ چین اور روس کے ساتھ بہترین تعلقات قائم ہوئے ہیں بلکہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی دن بدن بہتر ہوتے جارہے ہیں ۔
سینیر صحافی نعیم اللّٰہ یوسفزئی کے بقول پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری کشیدگی میں کمی واقع ہونے کا سلسلہ تیزی سے چل پڑا ہے اور دونوں ممالک کو احساس ہوگیا ہے کہ ان کی جغرافیائی اہمیّت سے بہتر تعلقات کی شکل میں امن کے قیام کے علاوہ معاشی طور پر بھی بھرپور استفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے ۔
سینیر سیاست دان سینیٹر زاہد خان کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے بہتر اور دوستانہ تعلقات وقت کا تقاضا ہے تاہم اس کی راہ میں افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپوں کی موجودگی ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔ اگر اس مسئلے کا حل نکالا گیا تو پورے خطے پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ان کے بقول حالیہ پیشرفت سے بہتر اور نتیجہ خیز اثرات کی توقع کی جارہی ہے تاہم خطے خصوصاً خیبر پختونخوا کے امن اور معاشی استحکام میں اس صوبے کی حکمران جماعت پی ٹی آئی کی پرو طالبان پالیسی کا قبلہ بھی درست کرنا پڑے گا کیونکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو مسلسل بدامنی کا سامنا ہے اور پی ٹی آئی حملہ اور قوتوں کو سپورٹ کرتی آرہی ہے ۔