GHAG

پہلگام کے بعد، خطے میں بےچینی کی نئی لہر

اے وسیم خٹک

پہلگام میں ہونے والے حالیہ واقعے کے بعد- جنوبی ایشیا کی فضا ایک بار پھر کشیدگی سے بھر گئی ہے۔ بھارت کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے جس نے دوطرفہ تعلقات کو ایک نئے بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اس وقت جب کہ دنیا مہنگائی، موسمیاتی تبدیلی اور دیگر چیلنجز سے نبرد آزما ہے، پاک بھارت تعلقات میں اچانک پیدا ہونے والی یہ تلخی خطے میں امن کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہے۔

بھارت نے یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد روکنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ معاہدہ 1960ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی ثالثی کے ذریعے طے پایا تھا اور دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے حوالے سے ایک بنیادی دستاویز ہے۔ اس معاہدے کی معطلی نہ صرف بین الاقوامی ضابطوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ ایک ایسے تنازعے کو ہوا دینے کے مترادف ہے جس کے اثرات دونوں ملکوں کے کروڑوں عوام پر مرتب ہو سکتے ہیں، خصوصاً پاکستان کے ان علاقوں پر جو ان دریاؤں کے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔

اس اقدام کے ساتھ ہی بھارت نے اپنے ملک میں موجود تمام پاکستانیوں کو 24 گھنٹے کے اندر واپسی کا حکم دے دیا ہے۔ تمام ویزے منسوخ کر دیے گئے ہیں اور سارک ویزہ اسکیم بھی معطل کر دی گئی ہے۔ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے سفارتی عملے کی تعداد کم کر کے 55 سے 35 کر دی گئی ہے، جبکہ دفاعی اتاشی کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ جواباً پاکستانی حکومت نے بھی بھارتی دفاعی اتاشی کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا اور واہگہ (اٹاری) بارڈر بند کر دیا ہے۔

بھارتی دفتر خارجہ کے ایک افسر نے میڈیا بریفنگ کے دوران بیان پڑھنے کے بعد گودی میڈیا کے سوالات لینے سے انکار کر کے حالات کی سنگینی کا عندیہ دے دیا۔ یہ عمل غیرمعمولی سمجھا جا رہا ہے، کیونکہ عموماً ایسے مواقع پر حکومتیں میڈیا کو استعمال کر کے عوامی رائے ہموار کرتی ہیں۔

پاکستانی حکومت نے تمام سیکیورٹی فورسز کو ہائی الرٹ پر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور بھارت کی جانب سے لگائی گئی یکطرفہ پابندیوں کا مناسب اور مؤثر جواب دینے کا عندیہ دیا ہے۔ حکومتی حلقے یہ واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان اپنی خودمختاری، سلامتی اور علاقائی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

تاہم، ان تمام سیاسی و سفارتی کشمکش سے ہٹ کر اصل سوال یہ ہے کہ اس صورتِ حال کا سب سے زیادہ اثر کن پر پڑے گا؟ وہ عام شہری جو سرحدوں کے دونوں طرف بسے ہیں، وہ کسان جو پانی پر انحصار کرتے ہیں، وہ طالب علم جو تعلیمی ویزوں پر تھے، یا وہ خاندان جو برسوں سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں — سب اس بحران کا غیر اعلانیہ ایندھن بن جاتے ہیں۔

یہ سب کچھ محض سفارتی بیانات یا سرکاری احکامات تک محدود نہیں رہا، بلکہ عام لوگوں کے دلوں میں بھی بےچینی اور خوف کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ سرحد کے دونوں جانب بسنے والے کروڑوں لوگ جنگ نہیں، امن چاہتے ہیں۔ وہ بچے جو سکول جا رہے ہیں، وہ کسان جو کھیتوں میں پسینہ بہا رہے ہیں، وہ مریض جو علاج کے منتظر ہیں — سب کی امید ایک پُرامن کل سے وابستہ ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت غصے یا جذبات کی بجائے تدبر اور دور اندیشی سے کام لے۔ تلخیوں کو مزید ہوا دینے کی بجائے مکالمے کے دروازے کھولے جائیں، کیونکہ جب بات چیت بند ہو جائے تو پھر صرف توپیں بولتی ہیں — اور توپوں کی زبان میں ہمیشہ نقصان ہی لکھا ہوتا ہے، چاہے وہ کسی بھی طرف ہو۔

(24 اپریل 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts